Wednesday, 01 May 2024
  1.  Home/
  2. Blog/
  3. Azhar Hussain Bhatti/
  4. Lams Ka Nasha Dimagh Ko Sunn Kar Deta Hai

Lams Ka Nasha Dimagh Ko Sunn Kar Deta Hai

لمس کا نشہ دماغ کو سُن کر دیتا ہے

شام رات کی چادر اوڑھنے میں لگی تھی تو وہ دوسری منزل کے کمرے کے آئینے میں خود کو ہر زاویے سے دیکھتے ہوئے اپنی شال کو اتارنے میں پوری طرح سے مگن تھی۔ وہ اپنے بدن کی تراش خراش کو ٹوہ رہی تھی۔ اُس کا انگ انگ اچھے اچھوں کے ایمان خطرے میں لانے کے لیے کافی تھا۔ جوانی کی حفاظت نہیں ہوتی۔ یہ تو وہ مال ہے جو ایک نہ ایک دن محبت کے حملے میں مالِ غنیمت کے طور چِھن جانا ہوتا ہے۔ وہ بھی اِسی حملے کی انتظار میں تھی۔

لیکن انتظار تھا کہ تکمیل کے مراحل میں ہی نہیں آ رہا تھا۔ اُس کی آنکھیں ہر وقت حملہ آور کی تلاش میں رہتیں مگر ابھی تک کوئی ایسا جوان شخص نہیں تھا ملا جو اُس کے مرمریں بدن کی سلطنت کو جیت سکتا۔ وہ تو خود ہتھیار ڈالے کسی جنگجو کی راہ تکنے میں لگی تھی۔ جوانی کا خیال خود نہیں رکھا جاتا۔ یہ ذمہ داری کسی اور کو سونپی جاتی ہے اور وہ بھی ایسے ہی کسی ذمہ دار انسان کے انتظار میں تھی۔

ایک دن اچانک حملہ ہوگیا جب اُس کے دور پار کا ایک کزن اُس کے گھر کسی شادی کا کارڈ دینے آیا۔ اچھی قامت، سفید رنگت اور گھنی مونچھوں تلے سرخ و گلابی ہونٹ اُس کی وجاہت میں اضافہ کرنے میں کسی کنجوسی سے کام نہیں لے رہے تھے۔ دل کے اندر ڈنکا بجا اور دل پورے زور سے جنگ میں اعلانِ شکست کی آوازیں لگانے لگا۔ وہ پہلی نظر میں ہی ہر جنگ کو جیت چکا تھا۔ وہ بھی کیا کرتی، جوان دل پہ کڑی پہرہ داری نہیں ہو سکتی۔ اِسے تو کوئی بھی آسانی سے لے جا سکتا ہے۔ اور وہ بھی دل دے بیٹھی تھی۔

ماں نے آواز لگائی کہ رَجو، کہاں مرگئی ہے۔ مہمان آیا ہے چائے بنا دے۔

وہ جی جی کرتے کیچن کی طرف لپکی۔ قدم ڈگمگا رہے تھے۔ ایسا ہو جاتا ہے۔ محبت جسم میں داخل ہونے لگے تو اعصاب کمزور پڑنے لگتے ہیں۔ آپ ردھم کے ساتھ کام کرنے سے قاصر ہو جاتے ہیں۔

وہ بھی ہوگئی تھی۔ جلدی سے کچھ باریک لکڑیاں چولھے میں ڈال کر اُنہیں آگ لگانے لگی۔ لکڑیاں شاید گیلی تھیں، سہی سے آگ نہیں پکڑ رہی تھیں جبکہ محبت اُس کے سینے میں بھانبھڑ بالنے لگے تھی۔ جلدی سے پاس پڑی ایک شیشی سے چند قطرے تیل کے انڈیل کر دوبارہ سے جب آگ لگائی تو شعلے ابھر آئے۔ دیگچی میں دودھ، پانی اور پتی ڈال کر چولھے پر چڑھا دی۔ چینی ڈالنا بھول گئی تھی۔ من میٹھا ہو جائے تو باہر کی مٹھاس کا احساس ہی نہیں رہتا۔ وہ بھی چوک گئی تھی۔

کچھ دیر گزری تو آگ چائے میں اور پہلی نظر اُس کے خون میں اُبال لانے لگی۔ وہ اپنے اندر کا کچھ نہیں کر سکتی تھی تو فوراَ چائے سے پتی چھان کر کپ میں ڈالے اُس حملہ آور کو دینے چلی گئی۔ ماں کوسنے لگی کہ اِتنی دیر میں چائے بنتی ہے بھلا؟ مہمان کب سے بیٹھا ہے۔

دل کے شور نے ماں کی آواز کو دبا دیا تھا۔ وہ کپ دے کر اُسے بغیر دیکھے پلٹ گئی۔ جانتی تھی کہ اگر دیکھ لیا تو حیاء کو بھرم ٹوٹ جائے گا اور محبت تو شرم مانگتی ہے۔ نڈر حرکتوں کی جگالی محبت کو جھاگ کی طرح نکال باہر کرتی ہے۔ اِسی لیے وہ پلکیں جھکائے لوٹ گئی۔ دل کی دھڑکنیں کسی باغی فوج کی طرح ادھم مچانے میں لگی تھیں۔ اس سے پہلے کہ کچھ سمٹتا، ماں کی آواز آئی کہ مہمان کو شوگر تھی کیا؟ جو چینی کے بغیر بنا کر لے آئی۔

اُس نے ہتھیلی کو ماتھے پہ پٹکا اور خود کو کوسنے لگی۔ پھر جلدی سے چینی لیکر مہمان کو دے آئی۔ ماں نے کمرہ تیار کرنے کا کہا کہ مہمان رات یہیں ٹھہرے گا۔ تو جانے کیوں اُس کے دل میں پٹاخے پھوٹنے لگے۔ دل بھی تو یہی چاہ رہا تھا کہ وہ آج کی رات کہیں نہ جائے۔ وہ بستر لگانے چلی گئی۔ ابھی اُدھر ہی تھی کہ وہ اندر آ گیا۔ وہ جھینپ گئی۔ بولی کہ بس دو منٹ دیں، کمرہ ابھی تیار ہو جائے گا۔

وہ ایک طرف کرسی پر بیٹھ کر اُسے دیکھنے لگا۔ وہ جان گئی۔ کیونکہ عورت کی آنکھیں اُس کے پورے بدن پر لگی ہوتی ہیں۔ کوئی نظر بھر کے دیکھنے لگے تو فوراً سمجھ جاتی ہیں۔ وہ بےخبر نہیں تھی بلکہ خوش تھی کہ اُس کے بدن کا محل وقوع دیکھنے والا کوئی آ گیا ہے۔

وہ جلدی سے کمرہ تیار کرکے پلٹنے لگی تو اُس نے بازو پکڑ لیا۔ وہ اِس کے لیے تیار نہیں تھی، ماتھے پہ پسینے کے قطرے نمودار ہونے لگ گئے۔ تھامنے والا کلائی پکڑ چکا تھا۔ وہ کسی شاشے کی طرح گھلنے لگی۔ آئینہ دیکھنے والے کا محتاج ہوتا ہے وہ بھی محتاج تھی مگر آج اُس کی محتاجی دور کرنے والا اُس کے سامنے ڈٹ کر کھڑا تھا۔ اُس نے بازو چھوڑنے کا کہا تو اُس نے دل چھوڑنے کی شرط رکھ دی۔ کہنے لگا کہ رجو چھ مہینے پہلے تمہیں شادی پر دیکھا تھا۔ تب سے تم سے محبت کرنے لگا ہوں۔ تم سے شادی کرنا چاہتا ہوں۔ وہ حیاء سے دوہری ہوئے جا رہی تھی۔

یہ کارڈ تو اک بہانہ تھا میں تو تمہیں جیتنے آیا ہوں اور تمہیں جیتے بغیر واپس نہیں جانے والا۔ اگر تم بھی مجھ سے محبت کرتی ہو تو رات کو ملنے آ جانا۔

یہ کہہ کر اُس نے بازو پر گرفت ڈھیلی کر دی۔ وہ فوراً وہاں سے بھاگی اور اپنے کمرے میں چلی گئی۔ اُس کی سانس کسی دھونکنی کی طرح چل رہی تھی۔ وہ خود کو بےبس محسوس کرنے لگی۔ کسی کو کچھ بتا بھی نہیں سکتی تھی۔ گھر میں تھا ہی کون، وہ اور اُس کی ماں۔ ایک بھائی تھا مگر وہ شہر میں نوکری کرتا تھا اور مہینوں بعد ہی گھر آتا تھا۔

وہ بستر پہ لیٹی چھت گھورنے لگی۔ جوانی اُسے اندر سے مسلسل چٹخ رہی تھی۔ لیکن وہ کسی سے یوں پہلی ہی ملاقات پہ اندھا اعتماد بھی نہیں کر سکتی تھی۔ وہ نہیں جانتی تھی کہ وہ کیسا ہے؟ وہ عزت اور بھرم رکھنا بھی جانتا ہے یا کسی کشمکش میں مبتلا، جوانی کی منہ زور لگاموں کو محبت سمجھنے کی غلطی کر رہا ہے۔ وہ کیسے اُس پر یقین کرتی کہ اُسے اُس کی محبت کھینچ کر لائی ہے یا بدن جیتنے کی چاہ میں وہ یہاں تک آیا ہے۔ وہ عجیب الجھنوں کا شکار ہو رہی تھی۔ دل کچھ کہتا تو دماغ کچھ کہنے لگتا۔

لمس کا نشہ دنیا کا سب سے بڑا نشہ ہوتا ہے اور سب سے کمزور دیواریں جوانی کی عمر کی ہوتی ہیں۔ جوانی کو سب سے زیادہ خطرہ دوسری جوانی سے ہوتا ہے اور رجو اپنی جوانی کو دوسری جوانی سے بچانے کی جنگ لڑ رہی تھی۔ وہ کردار کی طاقت بھی سمجھتی تھی مگر جوان بدن کا نشہ آور لمس اُس کے اعصاب کو کمزور کرنے میں لگا تھا۔ وہ جوان تھی اور جوانی پہلی بار بغاوت کرنے کا موقع بھی فراہم کر رہی تھی۔ ماں کے خراٹے اور اس کے اندر کا لاوا دونوں بڑھنے لگے تھے۔

وہی ہوا، جو ہوتا ہے۔ لمس کا نشہ دماغ کو سُن کر دیتا ہے۔ وہ بھی سُن دماغ لیے اُٹھ کر اُس کے کمرے میں چلی گئی۔ وہ پہلے ہی گھات لگائے بیٹھا تھا۔ شکار دیکھا تو جھپٹ پڑا اور کمرے میں دونوں کی تیز سانسوں کا شور بھرنے لگا۔ آندھی آئی اور سب ملیا میٹ کر گئی۔ وہ لڑکھڑاتے قدموں کے ساتھ جب واپس لوٹی تو سمجھ چکی تھی کہ وہ سب ہار آئی ہے۔ مان، حیاء، آبرو سب۔

وہ صبح اُٹھی تو پتہ چلا کہ وہ بس بدن جیتنے آیا تھا اور رات کو ہی لوٹ گیا تھا۔ وہ سینے پر بوجھ محسوس کرنے لگی۔ اُسے خود سے گِھن آنے لگی۔ وہ کیسے کسی انجان کو اپنا بدن سونپ سکتی ہے؟ اُسے محبت سے نفرت ہونے لگی۔ وہ خود کو کوسنے لگی کہ محبت ہی وہ کھال ہے جسے ہوس کے اوپر پہنا کر جوانیوں کو ورغلایا جاتا ہے۔ اُسے اب احساس ہونے لگا تھا کہ محبت اور چیز ہے اور بدن اور۔

لیکن کیا ہی اچھا ہو کہ بدن کی بھوک محبت کرنے والے سے پوری کی جائے اور یوں وہ دوسری رات سوچوں اور پچھتاوؤں کے بوجھ تلے دب کر مر گئی۔ اس نے خود کشی کر لی تھی۔

Check Also

Aik Aur Yakum May

By Sajid Ali Shmmas