Jaane Kahan Gaye Wo Khat
جانے کہاں گئے وہ خط
مجھے یاد ہے کہ والد صاحب گھر میں داخل ہونے سے پہلے ہلکا سا کھنکارتے تھے۔ دروازہ پر ایک پردہ پڑا ہوتا وہ بھی بے پردگی کی خیال سے، چوری چکاری کا تو سوال ہی پیدا نہیں ہوتا۔ ویسے اگر چور آبھی جاتے تو کیا لے جاتے۔ ہجرت کے بعد سب سے بڑا سرمایہ تو یادوں کا تھا جنہیں کبھی کوئی چرا نہیں سکتا تھا۔
والد صاحب کھنکارنے کے بعد چند لمحے رکتے اور پھر گھر میں داخل ہوتے۔ یہ اس زمانے میں بڑوں کا طور طریقہ ہوا کرتا تھا۔ والد کے آنے پر کوئی انہیں سلام تو کوئی آداب کہتا۔ والد صاحب دادی کو سلام کرتے۔ اس کے بعد پہلا سوال یہی پوچھتے کوئی خط تو نہیں آیا۔ میں بڑا حیران ہوا کرتا تھا کہ خط روز کہاں آتے ہیں تو والد صاحب روز خط کا کیوں پوچھتے ہیں۔ پھر مجھے اندازہ ہوگیا کہ یہ ہمارے گھر کا کلچر تھا۔
خط جس روز آ جاتا تو والد صاحب لباس تبدیل کرنے کے فورا بعد خط پڑھا کرتے۔ اس زمانے میں خط آنے کا مقصد محض ہیلو ہائے نہ ہوتا۔ سلام دعا اور خیریت معلوم کرنے کے بعد اصل بات بتائی جاتی۔ عام طور پر کسی کی نسبت طے ہونے یا شادی کی تاریخ بتائی جاتی یا پھر کسی کی طبیعت کی خرابی یا انتقال کی خبر دی جاتی۔ ہندوستان سے آنے والے خط بڑے اہم ہوتے۔ مجھے یاد ہے جب ہماری نانی کی انتقال کی خبر آئی تو وہ رونا پیٹنا ہوا کہ جیسے گھر میں ہی انتقال ہوا ہے حالانکہ ان کی تدفین کو چند روز پہلے ہو چکی تھی۔ خط آنے میں دس پندرہ دن لگنا عام سی بات تھی۔ مطلب ہم موت کا سوگ بھی باسی منایا کرتے تھے۔
دکھ درد میں ساتھ ہونے کا زمانہ تھا۔ ہمارا پورا خاندان اور محلہ جمع ہوگیا۔ سب والدہ سے ہرسے کے لیے آ رہے تھے اور پھر ویسے ہی فاتحہ وغیرہ دلائی گئی کہ جیسے نانی ہمارے ہاں رہا کرتی تھیں۔ ذرا سوچیں یہ سب ایک خط کی اطلاع پر تھا۔
خط میں خوشی کی خبر ہوتی تو اس کی خوشی چہروں پر ہوتی۔ ہندوستان جانا تو خیر کسی طرح ممکن نہ تھا۔ عورتیں خوشی کے آنسو بہا کر ہاتھوں ہاتھ برات ولیمے میں شرکت کر لیا کرتیں اور پھر کام کاج میں لگ جاتیں۔ کہیں دوسرے شہر جانا ہوتا تو سب سے پہلے گھر کی عورتیں جانے کا کہتیں۔ انہیں شادی سے زیادہ ٹرین میں سفر کرنے کا شوق ہوتا۔ ہم ایک شادی میں جانے کے لیے اسٹیشن پہنچے تو زندگی میں پہلی مرتبہ ٹرین میں بیٹھنے والی ہماری ایک عزیزہ نے قلیوں کی لال قمیضیں دیکھ کر ہماری چچی سے پوچھا: اے بھابھی یہ اتنے سارے لوگ لال کپڑے پہنے کہاں جا رہے ہیں۔ چچی نے نہایت سادگی سے کہا کہ یہ سب باراتی ہیں اور وہ مان گئیں۔ سادہ لوگ تھے، سادہ سے جواب اور سادہ سی ہاں۔
اب اگر خط لکھنا ہوتا تو حفظ مراتب و تعلق کا پورا پورا خیال رکھا جاتا۔ بڑے ہو کر جب ایک پرانی بلیک اینڈ وائٹ فلم دیکھی تو اندازہ ہوا کہ ہمارے ہاں بھی خط لکھتے ہوئے یہی سب کچھ ہوتا تھا۔ خط لکھنے کے لیے وقت نکالا جاتا ہے۔ یہ نہیں کہ روا روی میں لکھ دیا۔ لکھے کو کاٹا نہیں جاتا۔ لکھنے سے پہلے جملے کو ذہن میں بنا لیا جاتا۔ تب جا کر سینہ قرطاس پر منتقل کیا جاتا۔
آئیں ایک ایسے خط کی جانب چلتے ہیں جو اس زمانے میں لکھا جا رہا ہے۔ خط میں حفظ مراتب اور نفس مضمون کو مختصر و جامع رکھ کر غیر ضروری باتوں سے اجتناب کیا جا رہا ہے۔ شوہر نامدار لکھنے کے ساتھ ہلکی آواز میں پڑھ بھی رہے ہیں۔ اہلیہ ساتھ بیٹھی ہیں۔ خط سسر صاحب کو تحریر کیا جارہا ہے
شوہر: محترم قبلہ انتظار احمد صاحب
السلام علیکم
اہلیہ: کیا ابھی آپ کی شادی کی بات چل رہی ہے جو ابا کا نام اتنا بڑا کر دیا۔ خوشامدی بالکل نہیں، چڑ جائیں گے۔۔
شوہر: میرے سسر ہیں۔ اس لیے یہ تعظیم اختیار کی ہے
اہلیہ: چلیں جیسے آپ کی مرضی۔
شوہر: آپ کا مکتوب ملا اور یہ امر باعث اطمینان و انبساط ہے کہ آپ اور اہل خانہ خیریت سے ہیں۔ بفضلِ خدا یہاں بھی سب خیریت ہے۔ آپ کا خط دو روز پہلے موصول ہوا۔ دوسرے دن ہی جوابی خط لکھ کر ارسال کرنے کا ارادہ تھا مگر دفتری مصروفیات کے سبب ممکن نہ ہو سکا۔ بہ صمیم قلب معذرت خواہ ہوں۔ ابھی متعلقہ صاحب سے ملاقات نہیں کر سکا ہوں۔
اہلیہ: دو دن کی وضاحت کی کیا ضرورت ہے؟
شوہر: میں نے شروع میں آج کی تاریخ ڈالی ہے۔ قبلہ جانتے ہیں کہ میں جواب میں تاخیر نہیں کرتا۔ اس لیے وضاحت ضروری ہے۔
بیوی: اور یہ متعلقہ صاحب سے ملاقات کیا ہے؟ پہلیاں کیوں بھجوا رہے ہیں ابا کو؟
شوہر: پورا خط تو لکھ لینے دیں
بیوی: لکھ لیں۔ کس نے روکا ہے؟
شوہر: وجہ یہ ہے کہ ان صاحب کا قیام میری جائے رہائش سے قریباً 6 میل کی مسافت پر ہے۔ کوشش یہی ہے کہ چھٹی والے دن موصوف کے گھر جا کر آپ کا پیغام ان کے گوش گزار کروں اور ان کے جواب سے آگاہ ہوں۔
اہلیہ: اچھا، آپ کی بات پوری ہوگئی۔ اب ذرا میری طرف سے پوچھ لیں کہ راشدہ کے ہاں بچے کی سنا تھا۔ ہوگیا لڑکی ہوئی کہ لڑکا؟ پہلے والا تو صرف ڈیڑھ سال کا ہے۔ اتنی چھوٹائی بڑائی میں دو کو ایک ساتھ کیسے پال رہی ہوگئی۔ نہالچے دھو دھو کر پاگل ہو رہی ہوگی۔ ایک اکیلی کیا کیا کرے گی۔ بچے پالے یا شوہر کے نخرے اٹھائے۔ غضب خدا کا سگی خالہ کا بیٹا ہے اور ذرا بھی خیال نہیں۔ بیوی ہر وقت اس کی خدمت کو حاضر رہے۔ کہیں تو وقفہ دے لیتا۔
شوہر: یہ معلوم۔ کرنا چاہ رہی ہیں کہ جو ولادت متوقع تھی وہ ہوگئی۔ زچہ و بچہ خیریت سے ہیں۔ صاحب زادے ہوئے یا صاحبزادی؟ پہلے والے شیرخوار اور اس تولیدگی کے بعد سالی صاحبہ خاصی مصروف ہوں گی۔ کیا مصروفیت کو ہم زلف نے بھی محسوس کیا اور سالی صاحب کی جانب سے شوہر نوازی میں کچھ کمی واقع ہوئی؟
اہلیہ: ہیں۔۔ ہیں ! میں نے کیا کہا اور آپ نے کیا لکھدیا۔ کیا خط شاہی محل جا رہا ہے۔ اس میں اس کے شوہر کو کچھ نہ کہا۔ یہاں بھی سالی صاحبہ کی شوہر نوازی میں کمی کا ٹانکا لگا دیا۔ وہ کوئی شہزادہ معظم ہیں کہ ان کا نام نہ لیا۔
شوہر: میرے نزدیک یہ غیبت کے زمرے میں آتا ہے۔ مخاطب کیونکہ سالی صاحبہ ہیں اس لیے مخاطب وہی رہیں گی۔
اہلیہ: یہ بھلا کون سی غیبت ہوئی۔ آپ نے اس کی ہیبت کے قصے نہیں سنے۔ کھانے میں نمک زیادہ ہو تو زخموں پر نمک چھڑکنے لگتا ہے۔
شوہر: کچھ ھی کہیں یہ میرا طرز تکلم نہیں۔ اگر آپ سمجھتی ہیں تحریر حسب معیار و مزاج نہیں تو نیچے خود دو چار سطریں تحریر کر دہں۔
اہلیہ: نہیں ٹھیک ہے جو لکھ دیا وہی بہت ہے۔ کچھ بولی تو پھر کچھ سے کچھ لکھ دیں گے۔
شوہر: قبلہ اب میں اجازت چاھوں گا اور بہت جلد آپ کو ان صاحب سے جواب ملنے پر مطلع کروں گا۔۔ والسّلام
آپ کا فرماں بردار
طالب دعا۔۔ صغیر الدین
اب نہ یہ خط لکھنے والے رہے نہ پڑھنے والے۔ ترقی کی بھیڑ چال میں خط کہیں زمین پر گر گیا ہے اور نہ جانے کتنے پیروں کے تلے روندھا جا چکا ہے کہ اب اس کے بخیئے ملنا بھی مشکل ہیں۔ یہ ہماری خطا ہے کہ خط ہم سے جدا ہوگیا ہے۔ دنیا اتنی تیز ہوگئی ہے کہ سب کچھ موبائل پر ہے۔ وہ انگلیاں جو کبھی ادب وآداب سے قلم پکڑ کر ٹھہر ٹھہر کر لکھا کرتی تھیں۔ اب موبائل کے کی پیڈ پر تھرک تھرک کر منٹوں میں میسیج ٹائپ کرکے پیغام پہنچا دیتی ہیں وہ بھی رومن اردو میں۔ منٹوں نے صدیوں کے خط لکھنے کا رومانس چھین لیا۔ اب نہ اپنائیت، محبت اور احترام کی خوشبو میں رچے بسے وہ الفاظ ہیں اور نہ ہی انتظار کی کیفیت کے بعد انہیں بے ساختہ پڑھنا۔ بقول گلزار
خوشبو جیسے لوگ ملے افسانے میں
ایک پرانا خط کھولا انجانے میں