Sunday, 22 December 2024
  1.  Home
  2. Blog
  3. Azam Ali
  4. Tumhen Shadi Mubarak Ho

Tumhen Shadi Mubarak Ho

تمھیں شادی مبارک ہو

حالیہ اطلاعات کے مطابق تحریک انصاف نے اپنے منتخب آزاد ممبران اسمبلیاں کو مجلس وحدت المسلمین کے حبالۂ عقد میں دینے کا فیصلہ کیا ہے۔ اپنے ایک انٹرویو میں علامہ ناصر عباس نے ایک اپنی ہم مسلک نیوز ویب سائٹ کو بتایا کہ۔۔

2018 کے انتخابات سے قبل ایم ڈبلیو ایم نے پی ٹی آئی سے معاہدہ کیا، جس کے تحت ڈبلیو ایم کے لیئے سیٹوں کی تعداد طے ہوئی جن پر ایم ڈبلیو ایم کے امیدوار ہوں گے لیکن نام اور جھنڈا پی ٹی آئی کا ہوگا۔۔

انتخابات اور کامیابی کے بعد دیئے اس انٹرویو میں علامہ ناصر عباس کے مطابق یہ ملت، کے لیے آج تک کی ایک بڑی اور اپنی تاریخی اسٹریٹجی ثابت ہوئی۔۔

یہ تو پرانی بات تھئی۔۔ اب حالات کے جبر نے عمران خان کو اس مقام پر پہنچا دیا ہے کہ اپنے نام پر منتخب کردہ ارکین اسمبلی کو مجلس وحدت المسلمین کے ساتھ حبالہ عقد میں دیکر رخصت کردیں۔ اس صورت میں مجلس وحدت المسلمین چشم وزدن میں پارلیمان کی سب سے بڑی جماعت بن کر سامنے آئے گی۔

امکان یہ ہے کہ مجلس وحدت المسلمین کے ساتھ پیپلزپارٹی کے اتحاد کی صورت میں آئندہ حکومت میں بطور سینئر پارٹنر بیٹھنے کے قابل ہو تو ہمارے میاں صاحب کے پاس دل کے ارمان دل میں لیکر لندن سدھارنے کے سوا کوئی راستہ باقی نہیں رہے گا۔

لیکن یہ عرب ممالک بالخصوص سعودی عرب کے ساتھ تعلقات کو مینج کرنا ایک مسئلہ بن سکتا ہے۔ جب سعودی عرب ایک مخصوص مسلک کے پیروکار کے ہاتھ میں پاکستان کی فوجئی قیادت برداشت نہیں کرسکتا تو اس مسلک کی جماعت کو بطور حکمران۔۔

اگر مجلس وحدت المسلمین حکومت بنانے میں کامیاب ہو جاتی ہے اور پاکستان کی تاریخ میں پہلی بار کوئی مسلکی جماعت براہ راست بر سر اقتدار آئے گی۔ جس کی خوشیاں پڑوسی ملک ایران میں منائی جائیں گی ویسے بھی ایران آجکل بلکہ ہمیں سعودی کی بجائے ایرانی تیل انتہائی ارزاں قیمتوں پر ملا کرے گا۔

چاہے اس پر بات کرتے ہوئے ہماری زبان لڑکھڑاتی ہو پر ہمارے ہاں مسلکی فالٹ لائن ایک حقیقت ہے۔ اس بات کا امکان بھی ہے کہ بہت سے منتخب ممبران اسمبلی پی ٹی آئی کے مجموعی لبرل ماحول و نظریات کی وجہ سے ایک مذہبی تنظیم میں شرکت کے فیصلے سے مطمئن نہ ہو کر اپنی الگ راہیں متعین کرنے پر مجبور ہو جائیں۔

اگر اس فیصلے کا اعلان قبل از انتخاب ہوتا تو شاید اس کا اثر انتخابات پر بھی کہیں نہ کہیں پڑتا، لیکن اب کسی وسط المدتی انتخابات کے علاوہ آئندہ چار/پانچ سال تک کوئی انتخابی مہم درپیش نہیں ہے۔ اس لئے راوی ستّے خیر لکھتا ہے۔

جیسا بھی ہے ملک کی سب سے بڑی سیاسی جماعت کا کسی مسلکی جماعت یا گروہ کی چھتری تلے پناہ لینا شائد اس کے بانی و قائد کے مشکل ترین فیصلوں میں سے ایک ہے۔۔ ممکن ہے کہ آیندہ دو دنوں میں یوٹرن دیکھنے کا موقع ملے۔

دیکھیں کیا گزرے ہے قطرے پہ گہر ہوتے تک۔

Check Also

Do, Rotiyon Ki Bhook Ka Qarz

By Mohsin Khalid Mohsin