Singapore Main Pakistanion Ki Mulazmat, Imkanat o Mushkilat (1)
سنگاپور میں پاکستانیوں کی ملازمت، امکانات و مشکلات (1)
آج کل ملکی حالات کی بناء پر بیرون ملک روزگار و قسمت آزمائی کا رجحان تو زوروں پر ہے۔ کم سہی پر سنگاپور بھی اب یو ٹیوبروں کے ریڈار پر ہے بنیادی وجہ کہ یہاں پاکستانیوں کو نسبتاََ با آسانی سیاحتی ویزہ مل جاتا ہے۔
یو ٹیوبر زیادہ سے زیادہ ویور شپ کے ذریعے گوگل یا یوٹیوب سے پیسہ کمانے کی دھُن میں فسانے بنا رہے ہیں، جو کہ انتہائی غیر ذمہ درانہ حرکت ہے۔ یہ لوگ اپنا پیسہ کمانے کے لالچ میں متاثرین پر ممکنہ اثرات کو نظر انداز کر رہے ہیں۔ اگر کوئی ان کی ویڈیوز سے متاثر ہو کر قسمت آزمائی کرکے سنگاپور کے ویزے اور ہوائی ٹکٹ کے اخراجات دو لاکھ روپے سے زیادہ ہیں 30 دن کے سیاحتی ویزے کا مطلب اگر کوئی ملازمت تلاش کرنے کے لئے 30 دن رُک بھی گیا تو صرف قیام و طعام و دیگر اخراجات ہی مزید چار پانچ لاکھ روپے خرچ کرکے بے نیل و گھر واپس آنا پڑے گا۔ غریب و مڈل کلاس گھرانوں کے لئے اس سات آٹھ لاکھ روپے کا نقصان بہت بڑا ہے۔
اس فقیر کی معلومات سنگاپور تک محدود ہیں سوچا اپنی معلومات ہی کو شیئر کرکے کچھ یو ٹیوبروں کے پھیلائی ہوئی غلط اطلاعات کی تصحیح کر دی جائے۔
چند دن قبل ہمارے ایک دوست نے شکایت کی کہ جس بھی باہر مقیم دوست و رشتے دار سے پوچھا جائے تو وہ ایک خوفناک تصویر دکھا کر نئے آنے والے کی حوصلہ شکنی کرتا۔ ایسا محسوس ہوا پرانے مقیم نئے آنے والوں کو اپنے لئے خطرہ و پریشانی کا سبب بن کر انہیں دور رکھنے کی کوشش کرتے ہیں۔ میں ان کی رائے سے انتہائی احترام سے اختلاف کرتا ہوں کہ ہمارا ذاتی مشاہدہ مختلف ہے، ہر شخص کی خواہش ہوتی ہے کہ وہ جس ملک میں جائے جہاں تک ممکن ہو اپنے قریبی اعزاء و احباب کے آنے کے لئے آسانی پیدا کرے تاکہ گھر سے دور بھی اسے فیملی و خاندانی ماحول میسر آئے۔
لیکن مختلف ممالک کے تبدیل شدہ حالات و امیگریشن و جاب مارکیٹ، اور تیزی سے تبدیل ہونے والی سرکاری پالیسیوں کے چیلنج کی وجہ سے پہلے سے موجود افراد تو اچھے وقت میں اپنی جگہ بنا چُکے ہوتے ہیں لیکن نئے افراد کیلئے صورتحال یکسر مختلف ہوتی ہے۔ جب کوئی اپنے آنے کے خواہشمند عزیز کو یہ بتانے کی کوشش کرتا ہے تو ابتدائی ردعمل یہی ہوتا ہے کہ خود تو یہاں پہنچ گیا اور اب ہمیں مشکلات سے ڈرا رہا ہے۔
بنیادی وجہ یہ ہے کہ عموماً پاکستان سے نکلنے کا خواہشمند نیم خواندہ مزدور یا تعلیم یافتہ لیکن کمتر درجے کے ملازمتی تجربے کے حامل جن کے پاس ڈگری تو ہے لیکن اپنے شعبے میں مہارت و تجربے کے لحاظ سے کمزور اور اپنی ملازمت و حالات سے غیر مطمئن کسی بھی طرح ملک کے باہر نکلنے میں عافیت محسوس کرتے ہیں بدقسمتی سے سنگاپور میں ان دونوں اقسام کے پاکستانی امیگرینٹس کی کوئی گنجائش نہیں ہے۔
عموماً سنگاپور میں چار قسام کے کارکنان آتے:
1۔ لیبر کلاس جسے ورک پرمٹ دیا جاتا ہے۔ پاکستانیوں کو لیبر کی اجازت نہیں ہے۔
2۔ گھریلو خادماؤں (فلپائن۔ انڈونیشیا۔ انڈیا۔ برما۔ بنگلہ دیش) پاکستانی خادمہ کی اجازت نہیں ہے۔ ورک پرمٹ
3۔ درمیانے درجے کے ہنرمند کارکنان جن کی کم از کم تنخواہ 3150 سنگاپور ڈالر ماہانہ ہو انہیں ایس پاس S-Pass دیا جاتا ہے۔
4۔ سینئر مینیجمنٹ جن کی کم از کم تنخواہ پانچ ہزار ڈالر سے ہو کر E-Pass یعنی ایمپلائمنٹ پاس EP دیا جاتا ہے۔ E-Pass کے حامل شدہ افراد 6000 ڈالر سے زیادہ تنخواہ کی صورت میں اپنی اہلیہ اور بچوں، اور 12000 ڈالر ماہانہ تنخواہ کی صورت میں اپنے والدین کو بھی dependent پاس پر بطور زیر کفالت لانے کے مجاز ہوتے ہیں۔
لیبر کلاس اور ورک پرمٹ ان شعبہ جات تک محدود ہیں جنہیں عرف عام میں تھری ڈی (Dangerous، dirty، Difficult) یعنی گندے، خطرناک اور مشکل کام جو مقامی لوگ کرنا پسند نہیں کرتے کہا جاتا ہے۔ (گزشتہ سال تعمیراتی حادثات کی 45 اموات ہوئی جن میں اکثریت بنگلہ دیشی مزدوروں کی تھی)۔
بعض یو ٹیوٹر S-Pass کی کم از کم درکار تنخواہ 3150 ڈالر دکھا کر یہ بتانے کی کوشش کر رہے ہیں کہ سنگاپور کے قانون کے مطابق یہ کم از کم تنخواہ ہے۔ یہ غلط ہے۔ درحقیقت یہاں ورک پرمٹ پر کام کرنے والا لیبر اور ٹائم کے ساتھ بمشکل 1000/1200 ڈالر ماہانہ کماتا ہے صرف یہ کہ ان کی رہائش و خوارک آجر کی ذمہ داری ہوتی ہے۔ اس کی حالت یہ ہے کہ ہزاروں مزدوروں کی رہائش کے لئے مخصوص ہوسٹل بنائے گئے ہیں جن میں ہالوں میں چالیس پچاس لوگ اکٹھے رہتے ہیں۔
چونکہ پاکستانی لیبر کو کام کرنے کی اجازت ہی نہیں ہے اس لئے ہمارے لئے غیر متعلق ہے۔ صرف بعض یوٹیوبر کے بتائیے ہوئے پروپیگنڈے کی وضاحت لازمی تھی۔ اس کے علاوہ ہنرمند کارکنان الیکٹریشن، پلمبر، ایئرکنڈیشنر میکینک بھی زیادہ تر تعمیراتی مزدور، جہاز سازی کے کارکن اور صفائی کا عملہ، اس کے لیے بھی صرف مخصوص ممالک کے (چین، ملائشیا، بھارت و بنگلہ دیش زیادہ تر بھارتی و بنگلہ دیشی) مزدور ہی آ سکتے ہیں۔
کسی بھی شعبے میں اعلیٰ قابلیت کے حامل افراد جن میں (ڈاکٹر، انجینئر، بینکرز، سمندری جہاز کے افسران وغیرہ وغیرہ شامل ہیں) جن کی سنگاپور میں قلت ہو۔ اس کیٹیگری میں کسی بھی قومیت بشمول پاکستانیوں پر کوئی پابندی نہیں ہے۔ یہاں پر کئی پاکستانی انجینئرز، آئی ٹی پروفیشنل و بینکنگ ماہرین کام کر رہے ہیں۔ یہ عموماً درجہ بہ درجہ S-Pass یا E-Pass (EP) کی کیٹیگری میں آتے ہیں جس میں پاکستانی آ سکتے ہیں۔
اب پاکستان کا کوئی میڈیکل کالج یہاں کے منظور شدہ کالجوں کی فہرست میں شامل نہیں ہے۔ (کچھ عرصے قبل تک آغا خان میڈیکل کالج منظور شدہ اداروں کی فہرست میں شامل تھا) اس کے باوجود جن پاکستانی ڈاکٹروں نے بیرون ملک سے پوسٹ گریجوئیٹ کوالیفیکیشن حاصل کی ہے اس کی بنیاد پر یہاں کام کر سکتے ہیں۔
سوال یہ بھی ہے کیا سیاحت کے ویزے پر آ کر یہاں ملازمت تلاش کرنے کی کوشش کرنا بہتر ہوگا؟
اس کا واضع جواب نفی میں ہے۔
کسی بھی کمپنی کی آن لائن یا براہ راست ملازمت کے پروسیس میں پہلی ترجیح مقامی شہریوں یا پرمننٹ ریسڈنس PR کو دی جاتی ہے۔ اس لئے کسی بھی غیر ملکی درخواست گزار کی درخواست کو اسی صورت میں دیکھا جاتا ہے جب کمپنی کو واقعتاً کوئی مقامی شہری یا پرمننٹ ریسیڈنٹ PR نہ مل سکے۔ (پرمننٹ ریزیڈینس PR بھی غیر ملکی ہوتا ہے لیکن اسے ملازمت کاروبار و رہائشی حقوق حاصل ہوتے ہیں)۔
یاد رہے کہ کسی بھی کمپنی کو غیر ملکی پروفیشنل کے لئے ویزے کی درخواست دینے کے لئے مقامی و غیر ملکی کارکنان کے تناسب کو بھی برقرار رکھنا ہوتا ہے۔ کوئی کمپنی اپنی ٹوٹل افرادی قوت کا 15 - 20 فیصد سے زیادہ غیر ملکی کارکن ملازم نہیں رکھ سکتی۔ اس صورت میں ورک ویزے کی درخواست دینے سے پہلے ایک طویل طریقہ کار کے تحت پہلے ملازمت ایک سرکاری پورٹل پر مشتہر کرنے کے بعد امیگریشن کو مطمئن کرنا کہ وہ اپنی کوششوں کے باوجود مطلوبہ قابلیت کے حامل شخص مقامی شخص کو تلاش نہیں کر پائی اس کے بعد ہی مطلوبہ شخص کے ویزے کی کاروائی آگے چلتی ہے۔
اس سارے پروسیس میں کئی مہینے اور کمپنیوں کے مالی اخراجات لگتے ہیں جس وجہ سے جہاں تک ممکن ہو ان کی ترجیح مقامی افراد ہی کو ہائیر کرنے کی ہی ہوتی ہے۔ ملازمت کی درخواست دینے سے فائنل سیلیکشن تک کے پروسیس میں دو تین ماہ لگ جانا عام سی بات ہے۔ غیر ملکی کارکنان کے کیس میں دو تین ماہ مزید شامل کر لیں (یعنی پانچ سے چھ ماہ) جب کہ وزٹ ویزہ 30 دن کا ہوتا ہے، اس کے علاوہ ایسی کمپنیوں میں عموماً انٹرویو کے تین چار ادوار ہوتے ہیں جو آج کل سب ہی فون و اسکائپ کے ذریعے کئے جا سکتے۔
اس لحاظ سے مناسب یہی ہے کہ لاکھوں روپے بیرون ملک سفر و قیام کے اخراجات میں ضائع کرنے سے بہتر ہے کہ ملک میں رہ کر متعلقہ کمپنیوں میں آن لائن درخواستوں پر اکتفا کیا جائے۔ اگر آپ کے پاس مطلوبہ قابلیت و تجربہ ہوگا، اور آجر کسی اور کو مقامی طور پر نہیں تلاش کر سکا تو، ان تمام مراحل میں کامیابی کی صورت میں ملازمت و ویزے کے معاملات آجر دیکھے گا۔
واضع رہے کہ عموماً سوائے تعمیراتی لیبر کے، پروفیشنل کلاس کے یعنی E-Pass اور S-Pass پر آنے والے غیر ملکی کارکنان اپنی رہائش و خوارک کے خود ہی ذمہ دار ہوتے۔ کسی بھی تنخواہ کے پیکج کو ذاتی ضرورت اور لائف اسٹائل کی مطابقت سے دیکھنا لازم ہے۔
جاری۔۔