Sunday, 22 December 2024
  1.  Home
  2. Blog
  3. Azam Ali
  4. Roshan Kahin Bahar Ke Imkan Hue To Hain

Roshan Kahin Bahar Ke Imkan Hue To Hain

روشن کہیں بہار کے امکاں ہوئے تو ہیں

غزّہ کی جنگ میں تقریباً پندرہ ہزار فلسطینیوں کی شھادت پر نہ صرف مسلمان ممالک میں بیچینی کی لہر اور حکمرانوں کی بے حسی پر غم وغصّے کی کیفیت ایک لحاظ فطری تھی۔ دوسری طرف ایسا محسوس ہو رہا ہے کہ غزّہ کی جنگ میں عرب و دیگر مسلمان حکومتوں کا براہ راست جنگ میں نہ کودنا blessing in disguise (شر میں سے خیر کی صورت) ثابت ہو رہا ہے۔

اگر عرب جنگ میں فوجی طور پر کود جاتے تو مغربی دنیا کے نزدیک "چھوٹا سا معصوم" اسرایئل اتنے بڑے اور کئی ممالک کے خلاف اکیلا۔۔ ہمدردی کے ووٹ اس کے ساتھ ہی جاتے۔

‎یہاں دنیا بھر کی آنکھوں کے سامنے طاقتور اسرائیلی فوج کے ہاتھوں نہتے فلسطینیوں کے قتل عام نے اسرائیل کی حمایت جو ہولو کوسٹ کی داستانوں کی بنیاد پر یورپ کے احساس جُرم اور اسوقت کے اسرائیلی ہم مذہبوں مظلومیت کے احساس پر تھی کو شدید دھچکا پہنچایا ہے۔

اس شوشل میڈیا کے دور میں پندرہ ہزار مظلوم عورتوں بچوں کی لاشوں نے اس وقت یورپ اور امریکہ کی نئی نسل کو سوچنے پر مجبور کردیا ہے۔ ان کے لئے ہولوکوسٹ سُنی سُنائی داستان ہے اور غزّہ میں مظلوم فلسطینیوں کے ساتھ ہونے والا ظلم آنکھ دیکھی حقیقت۔ اب یہ نسل ہولوکوسٹ کی داستانوں سے آگے نکل گئی ہے۔ اس کے اثرات یورپ و امریکہ میں محسوس ہونا شروع ہو گئے ہیں۔

امریکی صدر جو باہیڈن کو اپنی جماعت میں بغاوت کا سامنا ہے، پانچ سو کے قریب وزارت خارجہ کے افسران نے بذریعہ خطوط اسرائیل کی "اتنی اندھی حمایت پر" اپنے تحفظات کا اظہار کیا ہے۔

نوجوان ووٹروں میں بلخصوص سیاہ فام اور ہسپانوی میں فلسطینیوں سے ہمدردی بڑھ کر بائیڈن کی پالیسیوں سے بیزاری بڑہتی جارہی ہے۔ اس صورتحال میں آئندہ انتخابات میں جو بائیڈن کی کامیابی کے امکانات کم ہوتے جارہے ہیں۔ یہ امریکی تاریخ کا تاریخ ساز لمحہ ہوگا جب امریکی مسلمانوں کے ووٹ انتخابات میں فیصلہ کُن عنصر بن جائیں گے۔

اسی طرح کینڈا کے وزیراعظم بھی شدید تنقید کا نشانہ بننے کے بعد جزوی ہی سہی پر یوٹرن لیتے نظر آرہا ہے۔ یورپ میں بنی اسرائیلی وہاں ایک نئے ہولو کوسٹ کے خدشے سے لرزہ براندام ہیں۔

اسرائیلی اخبار Haaretz کے مطابق امریکی و یورپی دارلحکومتوں نے اسرائیلی حکومت کو پیشگی اطلاع کردی ہے کہ ان کی اسرایئلئی کاروائیوں کی حمایت عرب اور مسلمان ممالک میں ان کے لئے شدید نقصان دہ ہے یعنی "ساڈے آسرے میں نہ رہیں"۔

ایک طرف یورپی اور امریکہ و کینیڈا میں عوامی ردعمل آہستہ آہستہ اسرائیل کی مخالف مڑتا نظر آرہا ہے، یقینا اس کمزور سی دھار کو سیلاب بنّے کے لیے وقت کی ضرورت ہے۔ دوسری طرف بدلتے ہوئے حالات میں امریکی و یورپی "اسرائیلی" ان ممالک میں اپنے طویل المدت مستقبل کے لئے تشویش میں مبتلا ہیں۔

ایک اسرائیلی اخبار کی لکھاری نے مختلف ممالک میں اپنے ہم مذہبوں کے تاثرات حاصل کئے ہیں ان کے مطابق۔۔

کینڈا کے شھرمونٹریال کی خاتون نے بتایا کہ وہ اور ان کے ہم مذہب خاصا تناؤ کے عالم میں رہ رہے ہیں۔ جب ان سے پوچھا کہ اگر وہ خوفزدہ ہیں تو اسرائیل کیوں نہ منتقل ہو جاتیں تو اُنہوں نے کہا کہ وہ اُمید کرتی ہیں کہ یہ کچھ عرصے میں چیزیں درست ہو جائیں گی۔

امریکی شھر فلاڈلفیا میں"ہم مذہب" خاتون نے بتایا کہ وہ موجودہ حالات سے پریشان ہیں اور بالخصوص اپنی بیٹی جو بروکلن میں رہتی ہے کے تحفظ کے لئے پریشان ہیں کہ نیویارک میں ان کی "قوم" کے خلاف اظہار نفرت کے واقعات کئی گنا بڑھ گئے ہیں۔

جب ان سے پوچھا گیا کہ چونکہ اب وہ اور ان کے شوہر دونوں ریٹائیر ہو چُکے ہیں اس لیے کیوں نہ اسرایئل ہجرت کر لیں، اس پر اُنہوں نے کہا کہ وہ کبھی اپنے بچوں کو چھوڑ کر نہیں جائیں گے۔ اگر حالات بہت خراب ہو تو وہ بچوں کے ساتھ ہی اسرائیل منتقل ہوں گے۔

ایک برطانوی نوجوان اسرائیلی ہم مذہب کے حالات بھی ایسے ہی تھے، اکتوبر کے واقعات کے بعد سے خاصی حراسانی کا نشانہ بن چُکا ہے، اس سے پوچھا گیا کہ کیا وہ برطانیہ سے اسرائیل منتقل ہونے کے لیے تیار ہے۔ اس کا کہنا ہے کہ "ایسا لگتا ہے کہ برطانیہ چھوڑنے کا وقت آگیا ہے، میں اسرائیل جانا نہیں چاہتا، پر اب سمجھ میں نہیں آتا کہاں جاؤں؟

ان تینوں کے جوابات سے ظاہر ہوتا ہے کہ وہ سب اپنے آس پاس اچانک وقوع پذیر ہونے والی تبدیلی کا ادراک رکھتے ہیں، اور اپنے شھر یا وطن میں غیر محفوظ بھی محسوس کرتے ہیں، اس کے باوجود اسرائیل ہجرت کرنے کے بارے میں متذبذب ہیں حالانکہ وہ جنگ کے باوجود ان کے لئے محفوظ ترین ملک ہے۔

یہ قوم اپنی تاریخ کو سمجھتی ہے کہ جہاں بھی وہ رہیں ایک دن وہاں سے انہیں نکالا ہی جاتا ہے۔ یہئی خوف انہیں پریشان کررہا ہے۔

امریکی اسٹیبلشمنٹ میں صدر بائیڈن کی اسرایئلی حمایت کے خلاف بغاوت یا ناراضگی بڑہتی جارہی ہے۔ پہلے ڈیموکریٹ پارٹی میں ہلکی پھلکی بغاوت کے آثار پیدا ہوئے جس نے بائیڈن کو آئندہ سال ہونے والے انتخابات میں ممکنہ شکست کے خوف میں مبتلا کردیا۔ صدر بائیڈن کھلے عام اسرائیل کی حمایت کرتے اب اسرائیل کو شمالی غزّہ پر بھرپور حملہ کرنے سے روکنے کی تلقین کی (یعنی اب بھی حملے کئی مشروط اجازت ہے)۔

پھر امریکی محکمہ خارجہ کے پانچ سو سے زائد اہلکاروں نے خطوط کے ذریعے حکومت کئی ننگی اسرائیل نوازی پر اپنے اختلاف کا اظہار کیا۔ اور اب آگ امریکی سی آئی اے تک پہنچ چُکی ہے۔

سی آئی اے کے شعبہ اینالائسس کی سربراہ نے اپنی فیس بُک پیچ پر فلسطین کا جھنڈا لگا کر سب کو ششدر کردیا۔ یہ خاتون شعبہ تجزیہ کی ایسوسی ایٹ ڈائریکٹر ہیں اور ان تین افراد میں شامل ہیں جو سی آئی آے کے مختلف درجوں پر کئے جانے والے تمام تجزیات کو ایجنسی کے تمام متعلقہ افراد تک تقسیم کرنے کی منظوری دیتی ہیں۔ بلکہ فائنیشیل ٹائمز کے مطابق انہوں نے فیس بُک پر "فری فلسطین" کے نعرے کے ساتھ اپنی سیلفی بھی پوسٹ کی تھی۔

یقینا ان کی اس حرکت کو پسند نہیں کیا گیا اور اس کے ان کے کیرئیر پر منفی اثرات رونما ہونے کے بہت زیادہ امکانات ہیں۔ لیکن یہ اتنے حساس اداروں کے اعلی ترین درجوں سے اس قسم کے اشارے اندرونی طور پر سوچوں میں بڑی تبدیلی کی طرف اشارہ کررہے ہیں۔

بظاہر امریکہ و یورپ میں حکمران طبقہ تو اب بھی اسرائیل کا حامی ہے لیکن عوامی اثر رسوخ کم سے ہوتا نظر آرہا ہے۔۔ اگر اسلامی ممالک اسوقت فلسطین کے حق میں فوجی مداخلت کرتے تو حالات تبدیل نہیں ہوتے۔ کہ اسرائیل کو ایک بار پھر اپنی مظلومیت کا پروپیگنڈہ کرنے کا موقع مل جاتا ہے۔

کبھی کبھی مظلومیت بندوق کی گولی سے زیادہ طاقتور ہوتی ہے۔ آج تک پوری دنیا بالخصوص یورپ و امریکہ جو ان کی طاقت کی اصل بنیاد ہے "اسرائیلی" بھی ہولو کوسٹ کے نام پر اپنی مظلومیت کو فروخت کرتے کرتے اب دنیا کے سامنے ظالم کے روپ میں نظر آنے لگے۔ پ۔۔ اب واضع طور پر ان سے ہمدردی میں کمی ہو تی نظر آرہی ہے۔ اگر یہ سلسلہ جاری رہا تو طویل مدت میں اسرائیل کے لیے بُری خبر ہے۔

نہ جانے کیوں مجھے شعب ابی طالب کا خیال آرہا ہے۔

Check Also

Tanhai Ke So Saal

By Syed Mehdi Bukhari