Bila Kharish Ke Khujane Ka Natija Bura He Hota Hai
بلا خارش کے کھجانے کا نتیجہ برا ہی ہوتا ہے

طالبان حکومت نے بھارتی شہہ پر دریائے کابل پر ڈیم بنا کر پاکستان میں داخل ہونے والے پانی کو روکنے کی دھمکی بھی ہمارے ساتھ غیر ضروری خارش مول لینے کا فیصلہ کرہی لیا ہے۔ جس کا نتیجہ جب بھی نکلا وہی بھگتیں گے۔
کہا جاتا ہے کہ مستقبل میں جنگیں پانی کی تقسیم پر ہوں گی۔ اس معاملے میں نیچائی (ڈاؤن اسٹریم) کی ریاستیں ہمیشہ ہی پانی کے منبع یعنی (اپ اسٹریم) کی ریاستوں سے خوفزدہ رہتی ہیں۔ یہی معاملہ پاکستان و بھارت کا ہے اور کسی حدتک بھارت و چین کا بھی ہے۔ پاکستان کے معاملے میں بھارت آپ اسٹریم ہے۔۔ بھارت کے معاملے میں چین۔
یہاں پر افغانستان ڈاؤن اسٹریم ریاست ہونے کے باوجود چونکہ دریائی چترال افغانستان میں داخل ہو کر واپس پاکستان آتا ہے جس کی افغانستان کی زراعت کے لئے بھی اہمیت ہے۔ لیکن بھارت کی شہہ پر پاکستان میں واپس داخل ہونے کی معمولی سبقت کو ہمارے خلاف استعمال کرنے کی حماقت کا نتیجہ افغانستان کے لیے دریائے چترال کے پورے پانی سے محرومی کی صورت میں نکل سکتا ہے۔
اس کا شدید نقصان افغانستان ہی کو ہوگا۔۔ اس کے ساتھ ہی افغانستان و پاکستان کے درمیان پانی نیا تنازعہ بھی شروع ہو جائے گا جس کی ذمہ دارئی افغان انتظامیہ و حکمران ٹولہ ہی ہوگا۔
افغانستان کم از کم اس وقت اپنی سرحدوں سے باہر نکل کر پاکستان سے مقابلہ کرنے کی فی الوقت صلاحیت نہیں ہے۔ گوریلہ جنگ اور ہوتی ہے لیکن باقائدہ فوجی جنگی صلاحیت و تیاری دہائیوں کا عمل ہوتا ہے۔ (اگر یہ ایڈونچر روسی یا امریکی فوج کی موجودگی میں ان کی حمایت سے لیتے تو کہانی مختلف ہو سکتی تھی)۔
پاکستان میں ڈیم بنانے کی بات نہیں ہورہی۔۔ بلکہ پانی کا رخ موڑنے کی بات ہوری ہے۔ جو کسی حدتک بھارت بھی کررہا ہے اب افغانستان نے بھی ہمارے ساتھ وہی کام شروع کرنا ہے۔ فرق اتنا ہے کہ انڈیا کے معاملے میں ہم نیچائی پر ہیں سارے پتّے اس کے پاس ہیں۔
افغانستان ہمارے مقابلے پر نیچائی پر ہے، اس لئے ہم اس معاملے میں بہتر حالت میں ہیں۔ باقی کیا ہم وہ ڈیم بنا سکیں گے یا نہیں؟
یہ ایک مشکل سوال ہے۔ کسی بھی دریا کا رخ بدلنے کے لیے پانی کی متبادل رہ گزر بنانی پڑتی ہے۔۔ اس صورت میں وہاں موجود آبادیاں و بستیاں متاثر ہوتی ہیں۔۔ جس کے نتیجے میں عوامی احتجاج۔۔ ایک سیاسی مسئلہ بن جاتا ہے جیسا کہ کالا باغ ڈیم کے معاملے میں ہوا۔ لیکن چونکہ کالا باغ ڈیم نے پورے ملک کو پانی فراہم کرنا تھا۔۔ اس لئے متاثرہ علاقوں میں یہ خود غرضانہ احساس کہ پورے ملک کے لیے ہم کیوں قربانی دیں؟
پھر نشیبی علاقے بالخصوص سندھ میں یہ احساس کی کہیں اوپر والی ڈیم کی ذریعے سپلائی کنڑول کرکے ان کے حصے کا پانی کم نہ کر سکیں۔ خود غرضی و سسٹم پر عدم اعتماد کی وجہ سے ہم ضرورت وخواہش کے باوجود کچھ نہ کر سکے۔
دریائے کابل میں بہاؤ میں رکاوٹ کا بڑا نقصان کے پی کے کو ہوگا۔۔ دوسری طرف افغان طالبان پاکستان کی پشتون آبادی کو نام نہاد پشتون لروبر کے نام پر اپنی حمایت پر اکسانے کی کوشش کررہی ہے۔ اب پاکستانی پشتون سرزمین کا پانی روکنے کا کوئی بھی اقدام کم از کم ان کے بارے میں منفی جذبات ابھارنے کا سبب ہی بنے گا۔
مجوزہ دریائے چترال کا رخ پھیرنے کا بڑا فائدہ خیبر پختون خواہ ہی کی آبادیوں کو ہوگا (کچھ نقصان بھی)۔ اس لیے حسب ضرورت وہ قربانی دینے پر رضامند ہو ہی جائیں گے۔ لیکن یہ اسی وقت ہوگا۔۔ جب افغانستان دریائے کابل پر ڈیم بنانے کے لئے عملی اقدامات شروع کرتے گا۔ اس صورت میں خیبر پختونخواہ میں خطرے کی گھنٹیاں تیز ہو جائیں گی اور لوگ بھی مطلوبہ قربانی دینے پر تیار ہو جائیں گے۔
اب تک پاکستان نے اس معاملے پر سنجیدگی پر عمل شروع نہیں کیا کہ فی الوقت ضرورت بھی نہیں ہے اور افغانستان کی جانب سے بلا کسی جارحانہ اقدام کے کرنا بھی غیر ضروری اشتعال انگیزی سمجھا جاتا۔
اب چونکہ افغان حکومت نے بات کرنی شروع کر ہی دی ہے۔۔ جنگ میں ساری ذمہ داری و ملبہ پہلی گولی چلانے والے کے اوپر ہی پڑتا ہے۔۔ ممکن ہے اس زبانی فائر کے نتیجے میں افغان حکمرانوں نے پاکستان کو وہ موقع فراہم کردیا جس کا وہ منتظر تھا۔
اگر افغان حکومت نے واقعتا کوئی ایسا اقدام اُٹھایا تو اس معاملے میں کالاباغ ڈیم جیسی مزاحمت بھی نہیں ہوگی دوسرے پاکستان پشتونوں میں افغانستان سے دوری کا عمل تیز ہو جائے گا جس کا طویل المدت نقصان بھی افغانستان ہی کو ہونا ہے کہ وہ خیبر پختونخواہ کے بڑے حصے پر دعویٰ کرتے ہیں۔
ڈیم بنانے کے لیے آپکو مالی وسائل (مالی وسائل تو کسی نہ کسی طرح مل ہی جاتے ہیں) سے زیادہ متاثرہ زمینوں و علاقوں کے لوگوں کی حمایت و تعاون درکار ہوتا ہے۔۔ جو کہ دوسرے ضروری ڈیموں میں موجود نہیں ہے۔۔ قومی منصوبوں میں علاقائی مفادات آڑے آجاتے ہیں اور وہ ایک بہت بڑا سیاسی ایٹم بم بن جاتا ہے جیسا کہ کالا باغ ڈیم کے معاملے میں ہوا۔ چونکہ افغانستان کے مجوزہ ڈیم کا بڑا نقصان کے پی کے ہی میں ہونا ہے۔۔ اس لحاظ سے علاقے حمایت ملنا آسان ہے۔ اگر کرنا چاہیں تو۔
لیکن اس اقدام کا نقصان ہمارے افغانستان سے تعلقات میں مزید کشیدگی کی صورت میں ہوگا۔ جو پہلے بھی اتنے اچھے نہیں ہیں لیکن یہ نقصان ہمارے لیے قابل برداشت ہے اور خوش قسمتی سے انہوں نے اپنے زبانی فائر کے ذریعے جواز بھی فراہم کردیا۔
جیسا کہ کہا جاتا ہے کہ "بلی کے بھاگوں چھینکا ٹوٹا"، اس امکان کو رد نہیں کیا جاسکتا کہ دل سے تو شاید ہم بھی ایسا کرنا چاہتے تھے۔۔ لیکن "دوستانہ افغانستان" کے خواہش میں اسے دل میں دبا بیٹھے تھے۔ اب چونکہ انہوں نے زبانی سہی پہلا فائر کرہی دیا ہے تو جوابی اقدام کے راستے کھل ہی گئے ہیں۔ اب کھیل شروع ہوگیا جیسا بھی ہے اس کھیل میں نقصان افغانستان کا زیادہ ہے۔
پس نوشت: - یہ ایک عمومی تبصرہ ہے، مجوزہ منصوبوں کے تکینکی فوائد، نقصانات و آبادی پر اثرات کے معاملے میں ماہرین کے تبصرے کا انتظار رہے گا۔

