Ab Ki Baar Tramp Sarkar
اب کی بار ٹرمپ سرکار
یہ وہ نعرہ ہے 2020 کے دورہ امریکہ میں بھارتی وزیراعظم مودی نے لگایا۔ اب یہی نعرہ ہمارے منصف مزاج بھائی بھی لگارہے ہیں کہ ان کا خیال ہے کہ ٹرمپ کے شھنشاہ عالم منتخب ہوتے ہیں وہ پاکستان کا گورنر جنرل ان کے پسندیدہ لیڈر کو متعین کردیں گے اور تو اور ہمارے ایک انتہائی تعلیم یافتہ و ذہین اسلامی والے دوست بھی یہئی نعرہ لگاتے نظر آئے کہ ان کے خیال میں ٹرمپ کی شہنشاہی میں فلسطینیوں کے مسائل حل ہوجائیں گے۔
اس وقت اسرائیلی وزیراعظم نیتن یاہوجو اپنی پارلیمانی حمایت کی کمی کی وجہ سے اقتدار بچانے کی جدوجہد کررہے ہیں نیویارک ٹائمز کے ایک کالم نگار کے مطابق ان کے لئے بھی یہی راستہ ہے کہ کسی طرح آئندہ انتخابات میں کملا حارث کو شکست دیکر ٹرمپ کو منتخب کرانے کی کوشش کی جائے۔
یہی ہے زندگی کچھ خواب چند امیدیں
انہیں کھلونوں سے تم بھی بہل سکو تو چلو
ہر ایک کے لئے اپنی پسند کا کھلونا۔۔
امریکہ کے صدارتی انتخابات چند ہفتے دور ہیں اور سابق صدر ٹرمپ کے منتخب ہونے کے امکانات روشن زیادہ محسوس ہوتے ہیں۔ لیکن پھر بھی کملا حارث کو نظر انداز نہیں کیا جاسکتا۔
یاد رہے صدر ٹرمپ حالیہ تاریخ کے انتہائی اسرائیل نواز امریکی صدور میں شمار ہوتے تھے، اور مسلمانوں کے خلاف بھی ان کا تعصب چھُپا ہوا نہیں ہے سابقہ دور میں اُنہوں نے ایک صدارتی حکمنامے کے ذریعے چھ مسلمان ممالک ایران، شام، عراق، لیبیا، صومالیہ، سوڈان سے کسی بھی فرد کے امریکہ میں داخلے پر پابندی عائد کی لیکن اس حکمنامے کو عدالت نے روک دیا۔
گذشتہ سال غزہ کی جنگ شروع ہونے کے بعد ایک تقریر میں اُنہوں نے وعدہ کیا کہ دوبارہ منتخب ہونے کے بعد حماس کے حامیوں اس کے ساتھ ہی شام، لیبیا، سومالیہ و یمن کے ساتھ کسی بھی ملک کے شھریوں جو امریکہ کی سلامتی کے لیے خطرہ تصور کئے جائیں کے امریکہ میں داخلے پر پابندی اور اسرائیل کے خلاف احتجاج کے فلسطینیوں کے حامی شرکاء کو گرفتار کرکے ان میں سے غیر ملکیوں کو امریکہ سے بے دخل کرنے کا اعلان کیا۔ بلکہ ساتھ میں ایک نظم کا تڑکا بھی لگایا جس میں غیر ملکی تارکین وطن کو زہریلے سانپوں سے تشبیہ دی گئی۔
بلکہ یہ بھی وعدہ کیا کہ دوبارہ منتخب ہونے کے کسی بھی غیر ملکی شخص جو اسرائیل کے وجود کے حق کا قائل نہیں ہو کا امریکہ میں داخلے پر پابندی اور پہلے سے موجود غیر ملکی طلبا جو اینٹی سیمٹک خیالات کے حامل پائے کے ویزے منسوخ کرکے امریکہ سے نکال دیا جائے گا۔
اسی وعدے کو گذشتہ جولائی میں مشیگن میں ایک جلوس سے خطاب کرتے ہوئے دُہرایا "عہدہ صدارت کا حلف اُٹھاتے ہی ہم تارکین وطن کی بے دخلی کا امریکہ کی تاریخ کا سب سے بڑا آپریشن کریں گے"۔
اگر جناب ٹرمپ پہلی مرتبہ صدارتی انتخاب میں حصہ لے رہے ہوتے تو تھوڑی بہت خوش فہمی کا جواز سمجھ میں آیا، لیکن چار سال میں بہت کچھ دیکھنے کے بعد بھی یہ کئی دوسرے صدور سے زیادہ اسرائیل پرست ثابت ہوئے۔ بلکہ دیگر امریکی صدور بل کلنٹن، اوبامہ و جو بائیڈن عمومی پرو اسرائیلی پالیسی کے باوجود کہیں نہ کہیں اسرائیل کے ساتھ سینگ بھی اڑالیتے تھیں لیکن صدر ٹرمپ جیسا اسرائیل مکمل وغیر مشروط تعاون کرنے والا امریکی صدر کم ہی آیا ہے۔
ان کے گذشتہ دور حکومت میں مشرق وسطیٰ کے ممالک کے معاملات دیکھنے کا ذمہ دار ان کا یہودی داماد جیراڈ کشنر تھا۔ یہی وہ شخص تھا جس نے مشرق وسطی کے ممالک بالخصوص سعودی عرب و متحدہ عرب امارات میں اسرائیل کی قبولیت کے لئے رضامند کیا۔ بلکہ سعودی عرب کے ولی عہد محمد بن سلمان نے تو کشنر کی کمپنی میں دو ارب ڈالر کی سرمایہ کاری بھی کی ہے۔
پاکستان میں اسوقت کے وزیراعظم شاہد خاقان عباسی نے اپنے بزنس پارٹنر کے نوجوان بیٹے علی جہانگیر کو پاکستان کا امریکہ میں سفیر متعین کیا تھا اسکے بعد 2019 میں عمران خان نے بھی اسے ایمبیسڈر ایٹ لارج کی حیثیت سے امریکہ میں صرف اس لئے متعین کیا تھا کہ کُشنر علی جہانگیر کا یونیورسٹی کا دوست تھا۔
کشنر پاکستان و دیگر عرب ممالک کے کام تو نہیں آیا لیکن اس نے اسرائیل کے لئے مشرق وسطیٰ کے لئے قطر، عمان، متحدہ عرب امارات و سعودی عرب کے دروازے کھول دئیے۔ بظاہر تو اگلی سرکار سے اسی عمل کا تسلسل اور نامکمل کاموں کی تکمیل کی کوشش۔۔
خدا سے دعا ہے کہ اگلی ٹرمپ سرکار ہم جیسے بدخواہوں کے قیاس و تعبیر کو غلط ثابت کرے۔۔ پر آثار اچھے نہیں لگتے۔