Aadmi Jo Kehta Hai Aadmi Jo Sunta Hai
آدمی جو کہتا ہے آدمی جو سُنتا ہے
ڈیزل و بلّے کا سنجوگ۔۔ گذشتہ روز تحریک انصاف کا وفد مولانا فضل الرحمن کے گھر پر سے رشتے کے ابتدائی گفتگو کے لئے حاضر ہوا۔۔ اگر اس سنجوگ کے بیل منڈھے چڑھتی ہے تو اتنی بُری بات بھی نہیں ہے۔
یہ فقیر تو 2018 کے انتخابات کے بعد ہی یہ عرض کرتا رہا کہ بجائے ایم کیو ایم سے متعہ کرنے کے مولانا فضل الرحمن کے ساتھ نکاح کرلیتے (مولانا کی ایک خصوصیت یہ بھی ہے کہ پانی کے طرح ہر سائز و شیپ کے برتن میں ڈہل جاتے ہیں بس قیمت مناسب ہونی چاہیے۔
جنرل مشرف ہوں یا نواز شریف، بینظیر و زرداری کے ساتھ بھی جگ، گلاس و بالٹی کے فرائض انجام دے چُکے ہیں۔ دوسری طرف وہ ایم کیو ایم کی طرح نہیں کہ ہر چوتھے دن فرمائشی پروگرام کے لئے روٹھ کر گھر بیٹھ عموما مولانا متعہ کی متعینہ مدت سُکون کے ساتھ گذارتے ہیں نہ خود پریشان ہوتے اور نہ ہی "پارٹنر" کو پریشان کرتے ہیں۔
دونوں کے لیڈران و حامیان ایک دوسرے کے بارے میں جو کچھ گُل افشانیاں کرتے رہے ہیں۔۔ وہ بھی تاریخ کا حصہ ہے۔ لیکن دونوں کو ایک سہولت حاصل ہے کہ دونوں کے معتقدین اپنے اپنے قائدین کے زومبی ہیں۔۔ زومبیوں کی فوج کے کمانڈر کو اپنی فوج کو سمجھانے و قائل کرنے کی ضرورت نہیں پڑتی۔۔ دونوں کی افواج ریموٹ کنٹرول سے چلتی ہیں۔
گذشتہ روز کی ملاقات سے پہلے ہی دشنام کی بارش۔۔ بہارو پھول برساؤ میرا "محبوب" آیا ہے۔۔ کے پیار بھرے نغموں میں تبدیل ہو گئے۔۔ انصافی بھی انہیں فضلو و ڈیزل کی بجائے انہیں مولانا لکھنے لگے۔
مولانا نے بھی پیشگی تحفہ محبت کے طور پر ایک نئے انٹرویو میں عمران خان کی حکومت کے خلاف تحریک عدم اعتماد کا ملبہ جنرل باجوہ و جنرل فیض حمید کے گلے ڈال دیا۔۔ لیکن سوال یہ بھی ہے کہ تحریک عدم اعتماد پیش ہونے سے مہینوں قبل ہی فیض حمید آئی ایس آئی کے ٹرانسفر ہو کر پشاور جا چُکے تھے۔ پھر عام تاثر یہ تھا کہ عمران خان فیض حمید کو فوج کا سربراہ متعین کرنا چاہتے تھے۔۔ اس صورت میں فیض حمید عمرانی حکومت کے خلاف تحریک عدم اعتماد کے ذریعے اپنے پیروں میں کلہاڑی کیوں مارتے؟
پی ٹی آئی کے ان کے پاس جانے کی واحد وجہ یہ ہے کہ کسی بھی تحریک چلانے کے لئے پی ٹی آئی کے پاس مزید مار کھانے و جیل جانے والا کارکن نہیں بچا۔ 9 مئی کے بعد جو بھی جیل گیا ہے، اس بیچارے کو اندازہ ہی نہیں تھا کہ ان کے ساتھ وہ کچھ ہو سکتا ہے۔ یہ بس لاعلمی کہیں یا غلط فہمی میں مارے گئے۔۔ اس کے بعد سوائے شوشل میڈیا کے سب ہی اچھے بچے بن گئے۔ اس صورت میں مولانا کسی بھی احتجاجی تماشے میں جان ڈالنے کے لئے مدارس سے خام مال باآسانی فراہم کرسکتے ہیں۔
یہ فرق ہوتا ہے باشعور سیاسی ورکرز کی جماعت میں جہاں ہر فیصلے کو کارکنان کی جانب سے تنقیدی چھلنی سے گذارا جاتا ہے اور کلٹ و زومبیوں میں جہاں لیڈر کا ایک اشارہ ہی کافی ہے وہاں پر لیڈر کے ہر فیصلے تصدیق و تاویل ہی ہوتی ہے اور کارکنان و حامیان بھیڑ بکری سے زیادہ نہیں ہوتے۔
دوسری طرف مولانا بھی اسٹیبلشمنٹ کے عدم التفاتی کے باعث ناراض ہیں، پہلے انہیں تین قومی اسمبلی کے نشستیں دی گئیں تھوڑا سا اظہار ناراضگی انہیں مزید دو نشستیں دلوا گیا۔۔ ناراضگی دور کرنے کے لئے "الیکشن کمیشن نے چند مزید حلقوں میں دوبارہ گنتی کے ذریعے انہیں مزید "تحائف" لیکر مولانا بھی ٹھنڈے ہو جائیں گے۔
یہ بھی ممکن ہے کہ بقول برادر جمال عبداللہ عثمان۔۔
"اگر وہ (مولانا) اپوزیشن میں بیٹھنے کا فیصلہ کرتے ہیں تو کیا ان کی پانچ نشستوں پر بھی دوبارہ "گنتی" کا عمل شروع ہوگا؟"
جمال عبدللہ عثمان
جیسا کہ ابتدا میں ہی عرض کیا تھا کہ فقیر سیاسی معاملات میں دشمنی کو ایک حد سے زیادہ بڑھانے کا قائل نہیں ہے، اگر مولانا کے ساتھ 2018 کے انتخابات کے فورا بعد ہی سیاسی درجہ حرارت اعتدال پر لانے کی کوشش کی جاتی تو ان کی حکومت مستحکم انداز سے چلتی اور آج یہ سب کچھ نہیں بھگت رہے ہوتے۔
لیکن بد قسمتی سے تحریک انصاف کے کارکنان و قیادت مخالفین یا مختلف الخیال جماعتوں کے لیے نفرت و تذلیل کو بطور ہتھیار استعمال کرنے عادت نے انہیں ساتھ عمومی سماجی و سیاسی زندگی میں باہمی تعاون کرنے کے لئے مشکل ترین گروپ بنا دیا ہے۔
یہاں تو ڈیزل و یخودی ایجنٹ کی جنگ میں دونوں جانبیں کے شاہان شریک تھے۔ دونوں طرف تلواریں کھنچی ہوئی تھیں۔ جبکہ جماعت اسلامی و پی ٹی آئی کی شوشل میڈیا جنگ میں دونوں کی قیادت عموما خاموش رہتی ہے۔
جماعت اسلامی پر نہ تو چوری و کرپشن کے الزامات رہے اور ان کا کوئی براہ راست جھگڑا کبھی نہیں رہا، اس کے باوجود شوشل میڈیا پر ان کے لیڈر کی پہنے والی ٹوپی پر استہزا سے لیکن ان کے خلاف منافق کی گردان کرنا (مجھے یقین ہے ان بیچاروں کو حدیث کے آئینے میں منافق کی علامات و شرائط کا علم ہی نہیں ہے)۔
انصافی دوستوں کے طرف سے مولانا فضل الرحمن کے لئےڈیزل کے تضحیک آمیز نعروں کا تسلسل اور مولویان کی طرف ان کا واحد ہتھیار کسی کے دین و ایمان میں شک پیدا کرنا اور یہودی ایجنٹ قسم کے گھٹیا فتوے دونوں نے ہی ایک دوسرے کے لئے کوئی کسر نہیں چھوڑی۔
لیکن اس میں کوئی شک نہیں کہ شوشل میڈیا پر راج تو تحریک انصاف کے مجاہدین ہی کا ہے، مخالفیں یا مختلف الخیال لوگوں و گروہوں کے ساتھ انہوں نے جو کچھ کیا و کہا اس نے نہ صرف سیاسی ماحول کو مکدّر کر دیا ہے بلکہ اب چاہیں بھی تو بھلانا مشکل لگتا ہے۔
کہتے ہیں کہ تقسیم شدہ دولت دشنام منافعے کے ساتھ لوٹ کر آتی ہے، آج یقینا تحریک انصاف کے ساتھ واقعتا زیادتی ہورہی ہے۔۔ دل چاہتا بھی ہے کہ ان حالات میں ان کے ساتھ ہمدردی نہ بھی کی جائے تو کم از کم انکی تکالیف کا مذاق نہ بنایا جائے۔
چاہے مجبورا ہی سہی پر تحریک انصاف کا دوسری سیاسی جماعتوں کے ساتھ روابط قائم کرنا ایک خوشگوار عمل ہے جس کا خیر مقدم کرنا چاہیے۔
اس کے باوجود اب کوئی بھی جماعت ان کے ساتھ عمومی سیاسی گفت و شنید کے لیے مل بیٹھنا بھی چاہیں تو دونوں کے لئے ایک دوسرے کے لئے کہے جانے والے الفاظ کی باز گشت بھی ان کے لئے شرمندگی کا سبب بنتی رہے گی۔
آدمی جو کہتا ہے آدمی جو سُنتا ہے
زندگی بھر وہ صدائیں پیچھا کرتی ہیں