Saturday, 21 September 2024
  1.  Home
  2. Blog
  3. Ayaz Khawaja
  4. Us Rizq Se Mout Achi (8)

Us Rizq Se Mout Achi (8)

اُس رزق سے موت اچھی (8)

یہ کہانی ایک تخلیقی کام ہے۔ کسی حقیقی شخص، زندہ یا فوت شدہ، یا حقیقی واقعات سے ملنا محض اتفاق ہے۔ اس کہانی میں موجود کردار، مقامات، اور واقعات مصنف کی تخلیق ہیں اور ان کا مقصد کسی حقیقی حالات یا افراد کی عکاسی کرنا نہیں ہے۔ پڑھنے والوں کی احتیاط کی درخواست ہے، کیونکہ اس کہانی میں ایسے موضوعات یا مواد شامل ہو سکتے ہیں جو کچھ لوگوں کے لیے حساس یا پریشان کن ہو سکتے ہیں۔

تاریک کمرہ۔۔ کرسی میں بیٹھا انسان بول رہا ہے ساتھ اغواکار بندوقیں لے کر کھڑے ہیں۔۔

شہباز: مجھے جانے دو۔۔ میری فیملی پریشان ہوگی۔

اغواکار زور سے ہنستے ہیں۔

اغواکار: ہم تمہیں عزت کے ساتھ جانے دیں گے اگر ہمیں ہماری رقم کسی بھی پریشانی کے بغیر مل جاتی ہے۔ hahaha.. لیکن اگر تمہاری فیملی نے کوئی چالاکی کی، تب۔۔ نہ تم انہیں دیکھ سکو گے اور نہ وہ تمہیں۔۔

کبھی نہیں۔۔ کبھی بھی نہیں (زور سے چلایا)

شہباز اپنے بندھے ہاتھ مشکل سے اٹھا کر اپنا چہرہ چھپاتا ہے، اغواکار فون کے قریب جا کر کھڑے ہو جاتے ہیں۔

اغواکار کہتا ہے۔۔ چلو پوچھتا ہوں پیسوں کا انتظام ہوگیا کہ نہیں

اغواکار فون ڈائل کرتا ہے۔۔

رُباب فون پر اغواکاروں سے بات کر رہی ہے۔۔

رُباب: دیکھو ڈیڈی کو جانے دو۔۔ وہ تمہیں جو چاہو گے دے دیں گے بس انہیں چھوڑ دو۔

اغواکار: کام کی بات کرو۔۔ پیسے کہاں ہیں۔

رُباب: ہمارے پاس اتنے پیسے نہیں ہیں۔۔ ڈیڈی کا بزنس کئی دنوں سے اچھا نہیں چل رہا تھا۔۔ میری امی نے اپنی زیورات بیچ دیے ہیں تاوان کی رقم کے لیے۔۔ تم لوگوں کو شرم نہیں آتی۔۔ کتنے ظالم ہو۔

اغواکار: رقم کہاں ہے اور کتنی ہے۔

رُباب: ہم 15 لاکھ دے سکتے ہیں۔۔ آج شام پہنچا دیں گے بس میرے ڈیڈی کو چھوڑ دو۔

اغواکار کہتا ہے۔۔ کہتی ہے 15 لاکھ ہیں۔۔ آج شام پہنچا دیں گے۔۔ اغواکار کہتے ہیں۔۔ آج شام؟

ہاں آج شام۔۔ یار 15 لاکھ کی رقم کو خواب میں بھی نہیں دیکھا ہے

(سرگوشی میں فون پکڑ کر۔۔ لے لو یار۔۔ کل کس نے دیکھی ہے۔۔ ویسے بھی اس بوڑھے کو یہاں رکھنا۔۔ ہر لمحہ خطرہ ہے۔۔ پتہ نہیں پولیس کو خبر ہے کہ نہیں؟ کیا کہتے ہو

مان لیں۔۔ آج ہی پیسے مل جائیں گے۔۔

اغواکار کہتے ہیں ہاں چلو کہہ دو ابھی ایک گھنٹے میں پیسے لانے ہیں اور کوئی چالاکی نہیں۔۔

اغواکار: آج شام کس نے دیکھی ہے۔۔ ہا ہا ہا۔۔ ابھی لے کر دو۔۔ تم لوگوں کے پاس صرف ایک گھنٹہ ہے ورنہ باپ سے کبھی نہیں مل پاؤگی؟

رُباب: ہاں۔۔ ہاں۔۔ لیکن میرے ڈیڈی کو نقصان نہ پہنچانا۔۔ پلیز

اغواکار: اچھا 15 لاکھ۔۔ ہارڈ کیش۔۔ کوئی جعلی کام نہیں۔۔ سن لیا؟ (چیخ کر کہتا ہے)

رُباب کا گھر۔۔ وسیم صاحب کے ساتھ پیسے لے کر جانا ہے۔ وسیم نے 15 لاکھ روپے۔۔ ایک ایک نوٹ گن کر بیگ میں رکھے اور سارہ کی گاڑی میں سارہ کے ڈرائیور کے ساتھ اس مقام کی طرف روانہ ہوگیا۔

یہ شہر سے باہر کا علاقہ تھا۔ آبادی بھی کم تھی وہاں۔ ڈرائیور کو سمجھایا نظر رکھو ایک ٹریش ڈرم نظر آئے گا ایک جنرل اسٹور کے پاس۔۔

اسٹور کا نام ہے حبیب جنرل اسٹور۔

سارہ کو وہ اسٹور نظر آ گیا، وہ چیخی یہی ہے وہ جگہ۔۔

دیکھو ڈرم بھی نظر آ رہا ہے۔۔ گاربیج کا ہی ہوگا۔۔ وسیم صاحب نے بیگ پر گرفت مضبوط کر لی۔۔

یہاں پر گاڑی سست کرو۔۔ انہوں نے کہا ہے کہ گاڑی سے اترنے کی ضرورت نہیں ہے۔۔

بس بگ پھینک دینا ڈرم میں

گاڑی سست ہوتی ہے۔۔ ڈرم کے پاس سے گزرتی ہے۔۔

وسیم صاحب بیگ کو گاڑی کی کھڑکی سے ہاتھ نکال کر ڈرم کی طرف اچھال دیتے ہیں۔۔

بگ صحیح جگہ گرجاتا ہے۔۔ ڈرائیور کو ہدایت تھی کہ جیسے ہی بیگ گرجائے ڈرم میں گاڑی کو تیز رفتار سے اس علاقے سے نکال لینا، ڈرائیور ایسا ہی کرتا ہے۔

تاریک کمرہ۔۔ اغواکار پیسے گن رہے ہیں اور آپس میں مذاق کر رہے ہیں۔

اغواکار: 15 لاکھ۔۔ ہا ہا ہا۔۔ 15 لاکھ۔۔ دیکھو نوٹ جعلی تو نہیں ہیں۔۔ آج کل لوگ بہت دھوکے باز ہو گئے ہیں۔۔ ہا ہا ہا

دوسرے اغواکار ہنستے ہوئے کہتے ہیں۔۔ نہیں سب ٹھیک ہے۔۔

اچھے لوگوں کو اچھے لوگ ہی ملتے ہیں۔۔ ہا ہا ہا

اغواکار: اچھا۔۔ تب ہمیں اپنے وعدے کے مطابق شہباز کو خاندان کو دینا ہے۔

اغواکار(دوسرے): میرا خیال ہے اسے رکھتے ہیں اور مزید پیسوں کی ڈیمانڈ کرتے ہیں

اغواکار: (چیخ کر کہتا ہے)۔۔ نہیں اسی وقت اس کے ہاتھ کھولو لیکن آنکھوں پر پٹی رہنے دو۔۔

پک آپ ٹرک میں بیٹھا کر واپس ٹرش ڈرم کے پاس چھوڑ آؤ۔۔ میں کال کرتا ہوں انہیں۔۔ آ کر اپنا گاربیج لے جائیں۔۔ ہا ہا ہا (سب ہنستے ہیں)

تاریک کمرہ۔۔ ایک اغواکار فون پر اور دوسرے اغواکار اسے سن رہے ہیں

اغواکار: ابا واپس چاہیے تو اسی ڈرم کے پاس کھڑا ہے ابھی آؤ آ کر لے جاؤ

رُباب: دیکھو میرے ڈیڈی کو نقصان نہ پہنچانا۔۔ پلیز پلیز

اغواکار: کہا بس آ کر لے جاؤ اس سے پہلے کہ بہت دیر ہو جائے۔۔ ہا ہا ہا

وسیم صاحب، ڈرائیور سارہ اور اس دفعہ رُباب بھی گاڑی میں ہے۔۔ گاڑی اسی مقام پر واپس جاتی ہے۔۔

اس بار ڈرائیور کو کوئی مسئلہ نہیں ہوا ڈرم کو تلاش کرنے میں کیونکہ اس کے سامنے شہباز صاحب ظلم و ستم کی تصویر بنائے کھڑے تھے۔

فیملی انہیں آرام سے واپس گاڑی میں بٹھا لیتی ہے اور گھر لے آتی ہے۔

اگلے ہفتے ایک شاندار دعوت کا اہتمام ہوتا ہے جس میں دوست، رشتہ دار، دفتر کے لوگ سبھی مدعو ہوتے ہیں۔

پارٹی سین۔۔ لوگ کھانا اور تفریح انجوائے کر رہے ہیں، رُباب کی نظریں کسی کو ڈھونڈ رہی ہوتی ہیں۔

ممی: سُفیان کو دیکھا ہے آپ نے؟ ابھی تک آیا نہیں۔

سارہ: آئے گا، بیٹا، تم ذرا guests کو receive کرو، میں شہباز کو لے کر آتی ہوں، تمہارے ابو کی health ٹھیک نہیں ہے۔

رُباب: امی، وہ جلد ٹھیک ہو جائیں گے، time is the best healer، kidnap ہونا اور پھر ان ظالموں کے ساتھ وقت گزارنا۔

پھر اتنی بڑی رقم، these are not small things، خدا ان ناکام لوگوں کو جلد سبق سکھائے گا، مجھے یقین ہے۔

رُباب: چلو شکر، وہ آخر کار آ گیا!

کیوں دیر سے آئے سُفیان؟

سُفیان: میں کچھ۔۔ I was taking care of some priorities

رُباب: مجھ، سے میرے ابو اور اس پارٹی سے زیادہ اہم کیا ہو سکتا ہے؟

سُفیان: تم نہیں سمجھو گی، there are many things which are way more important then this

رُباب: کیا تم پاگل ہو گئے ہو؟ ، ابو kidnap ہوئے، ہم پر کیا گزری، ransome دے کر ابو کو واپس لائے اتنی مشکلات سے، آج ان کی صحت یابی کا جشن منا رہے ہیں، اور تم عجیب عجیب باتیں کر رہے ہو۔

سُفیان: رُباب، مجھے تم سے ایک بہت اہم بات کرنی ہے۔

رُباب: ہاں کہو، بولو۔

سُفیان: میں صرف یہ کہنا چاہتا تھا، مِر ایک اچھا لڑکا ہے۔

رُباب: ہاں وہ تو ہے، مجھے کچھ نیا بتاؤ۔

سُفیان: نہیں، میرا مطلب ہے کہ وہ تمہارے لیے اچھا لڑکا ہے، اگر وہ propose کرے، تو بس ہاں کہ دینا۔

رُباب: آنکھیں گھماتی ہے، سُفیان، تمہیں آج آنا نہیں چاہیے تھا، ہم ویسے ہی ٹھیک تھے۔

کیسی باتیں کر رہے ہو، میری کچھ سمجھ میں نہیں آ رہا۔

سُفیان: رُباب، میری بات غور سے سنو، میری منزل اور تمہاری منزل ایک جیسی ہیں لیکن۔

ہمارے راستے مختلف ہیں، تم میرے ساتھ بہت دیر تک نہیں چل سکتی۔

یہ سمجھنا، پسند کرنا سب اپنی جگہ لیکن حقیقت بہت تلخ ہوتی ہے۔

مِر تمہاری کلاس کا ہے، تمہارے caliber کا۔

تمہیں سفر کرنے کا شوق ہے، وہ تمہارے ساتھ دنیا بھر میں سفر کرے گا۔

تم میرے ساتھ نہیں چل سکتی، میں تمہیں لے کر چلتا ہوں لیکن اب تک میں اپنے حالات اور دوسری صورتحال سے تھک چکا ہوں۔

میں جا رہا ہوں، میں شاید کبھی واپس نہ آؤں۔

رُباب: تم کہاں جا رہے ہو؟ مجھے بتاؤ، یہ سب کچھ، مجھے چھوڑ کر کہاں جا رہے ہو؟ (چیختی ہے)

سُفیان: شاید مجھے خود نہیں پتہ کہ میں کہاں جا رہا ہوں، رُباب، مجھے معاف کر دینا اور مجھے بھول جانا۔

یہ تمہارے لیے ایک چھوٹا سا تحفہ ہے، یہ رکھ لو، (ایک بہت خوبصورت لاکٹ دیتا ہے جس پر ایک نیلی تتلی بنی ہوتی ہے)

رُباب اسے لیتی ہے، لیکن وہ ایسے کھڑی ہے جیسے اسے اپنے ارد گرد کا کوئی ہوش نہیں۔

جاری ہے۔۔

Check Also

Sufism, Islah Ya Inheraf?

By Sheraz Ishfaq