Thursday, 19 September 2024
  1.  Home
  2. Blog
  3. Ayaz Khawaja
  4. Us Rizq Se Mout Achi (6)

Us Rizq Se Mout Achi (6)

اُس رزق سے موت اچھی (6)

مِشال نے محسوس کیا کہ سفیان بہت زیادہ پریشان ہے۔ اس نے ایک بار پھر اسے قائل کرنے کی کوشش کی، لیکن اس بار سفیان چلانے لگا اور اسے اپنے کمرے سے باہر جانے کو کہا۔

مِشال: شاہباز انکل کی جاب کی آفر قبول کر لو۔

سفیان: تمہارے پاس کوئی اور موضوع نہیں ہوتا؟ بس یہی ایک جاب کر لو، جاب کر لو۔

مِشال: تم سنتے بھی نہیں ہو بھائی۔۔ ویسے مجھے نہیں پوچھنا چاہیے تھا۔

سفیان: دیکھو، میں بہت آپ سیٹ ہوں۔۔ تم یہاں سے جاؤ۔

مِشال: لیکن میری بات تو سنو۔۔ کیا ہوا، اتنے آپ سیٹ کیوں ہو؟

سفیان: میرے خدا، بس مجھے اکیلا چھوڑ دو۔۔ جاؤ یہاں سے

مِشال خاموشی سے کمرے سے باہر نکل جاتی ہے۔

عثمان اخبار پڑھتے ہوئے رابعہ سے فیملی کے معاملات کے بارے میں پوچھتے ہیں۔ رابعہ نے عثمان پر زبانی حملہ کیا اور کہا کہ وہ اخبار پڑھتے رہیں، فیملی کے مسائل میں اچانک دلچسپی کیوں؟

عثمان اپنی بیوی کو کچھ دیر غور سے دیکھتے ہیں پھر اس کا خالی کپ چائے بھرنے کے لیے دیتے ہیں اور رابعہ دوبارہ کچن میں جا کر اونچی آواز میں شکوہ کرتی ہیں۔

عثمان: گھر میں کیا ہو رہا ہے، بہت خاموشی ہے۔

رابعہ: بس اخبار پڑھتے رہیں، دنیا بھر کی خبریں جاننی ہیں لیکن اپنے گھر میں کیا ہو رہا ہے، کچھ معلوم نہیں۔

عثمان: اب کیا ہوگیا؟ کوئی نئی قیامت آ گئی؟

رابعہ: قیامت تو نہیں آئی، لیکن آسکتی ہے اگر یہی حالات رہے۔۔ بیٹے کی نوکری نہیں، بیٹی پڑھائی چھوڑ رہی ہے۔۔ اس کی شادی بھی کرنی ہے۔۔ کوئی پرواہ نہیں، فکر کرنے کے لیے میں ایک ہی رہ گئی ہوں؟

عثمان: سب ٹھیک ہو جائے گا، خدا پر بھروسہ رکھو۔۔ بس ایک احسان کر دو۔۔ یہ جو چائے کا کپ ہے، پتہ نہیں کیوں یہ بار بار خالی ہو جاتا ہے، ایک کپ تازہ چائے مل جائے تو کیا بات ہے (مسکراتے ہوئے)۔

رابعہ (کپ ہاتھ سے لے کر) ہاں سب ٹھیک ہو جائے گا، بس خبریں، چائے اور سب کچھ جادو کی چھڑی سے ٹھیک ہو جائے گا اچانک۔۔ لیکن جادو کی چھڑی بھی تو ہو، میں تو پریشان ہوگئی ہوں اس گھر سے اور یہاں رہنے والوں سے۔۔ مجھے خدا اٹھا لے تو سکون آئے۔

عثمان: (مسکراتے ہوئے)۔۔ ان سے بڑی قیامت کیا ہو سکتی ہے، خدا انہیں ہدایت دے۔

شاہباز نے ایک نئی کاروباری ڈیل کسی جاپانی کمپنی کے ساتھ مکمل کی جو بہت مشکل نظر آتی تھی کیونکہ بہت ساری بڈز تھیں اور مقابلہ بہت سخت تھا۔ وہ اور اس کا عملہ جانتے تھے کہ انہیں کس طرح مختلف لوگوں اور پارٹیوں کو favors اور رشوتیں دے کر کامیابی ملی، لیکن یہ معاملہ بہت مشکل تھا۔

سب جانتے ہیں کہ شاہباز جب کسی چیز کا ارادہ کر لیتا ہے تو اس کے سامنے کوئی بھی رکاوٹیں آئیں، وہ ہر قیمت پر اسے حاصل کرتا ہے۔

پولیس اسے گرفتار کرنا چاہتی تھی کیونکہ اس کے بہت سارے چھوٹے بڑے کاروباری جرائم تھے، لیکن چونکہ پیسہ اور شیطانی ذہن تھا، اس لیے پولیس کو بھی خوش کرکے رکھا ہوا تھا۔ زندگی ٹھیک چل رہی تھی۔

شاہباز کا گھر۔۔ کمرہ: لیونگ روم وقت: شام

سارہ، شاہباز کی بیوی، لیونگ روم میں کوئی میگزین پڑھ رہی ہے۔ اچانک اس کے ڈرائیور داود کا فون آتا ہے۔ وہ پریشان حال سارہ کو بتاتا ہے کہ اسے ایک سڑک حادثہ پیش آیا ہے۔ اس نے ایک لڑکے کو اپنی کار سے ٹکر مار دی تھی جو سڑک پر اچانک آ گیا تھا۔

سارہ بہت ناراض ہوتی ہے ڈرائیور پر، پھر فون بند کرکے اپنے شوہر کو کال کرتی ہے۔ شاہباز ڈرائیور سے کہتا ہے کہ فوراً اس لڑکے کو اسپتال لے جاؤ اور کہتا ہے کہ میں وہیں تم سے ملوں گا۔ پھر وہ اسپتال میں زخمی لڑکے اور ڈرائیور داود سے ملتا ہے۔

وہ 13 سال کا لڑکا تھا ایمرجنسی ایریا میں پٹیاں لپٹے اپنے بستر میں کراہ رہا تھا۔ لڑکے کے والدین، رشتہ دار، ڈاکٹروں، نرسوں اور پیرا میڈیکس پریشانی سے کھڑے تھے۔

شاہباز اپنے ڈرائیور پر بہت ناراض تھا۔ ڈرائیور داود اسے بار بار یقین دلا رہا تھا کہ اس کا کوئی قصور نہیں تھا، یہ بچہ ہی بے حد لاپرواہی سے سڑک پر آ گیا تھا۔ شاہباز اسے پھر سے ڈانٹتا ہے۔

ڈرائیور داود: سر، خدا کی قسم، میرا کوئی قصور نہیں تھا، یہ بچہ ہی بے حد لاپرواہی سے سڑک پر آ گیا تھا، میں نے بہت کوشش کی۔۔ یہ بچہ مذاق کے موڈ میں تھا، جب گاڑی رکی تو رک گیا۔۔ جب چلی تو دوڑ پڑا، بال اٹھانے۔۔ میرا کیا قصور سر

شاہباز: بکواس بند کرو۔۔ تمہیں دیکھنا چاہیے تھا۔۔ وہ بچہ ہے۔۔ تم بچے نہیں ہو۔۔ اس کراچی میں ان بچوں کے لیے کوئی کھیلنے کی جگہیں ہیں کیا؟

یہ سڑک پر نہیں تو کہاں کھیلیں گے؟ بتاؤ مجھے۔

اپنا جرم بچے پرنہ ڈالو۔۔ اب خاموش ہو جاؤ، شکر کرو میں تمہیں فارغ نہیں کر رہا، ایک نئی مصیبت کھڑی کر دی۔

شاہباز بچے کے والدین سے مل کر ان سے وعدہ کرتا ہے اور یقین دلاتا ہے کہ اس بچے کے اسپتال کے سارے اخراجات وہ خود اٹھائے گا اور آپ اس طرف سے بے فکر ہو جائیں۔

پولیس نے کوشش کی کہ ایک بے دھڑک ڈرائیونگ اور ہٹ اینڈ رن کیس بنا دے لیکن شاہباز نے ایک کیس پہلے ہی اس بچے کی لاپرواہی اور ڈرائیور کے بیانات کے ساتھ شروع کر دیا تھا۔

پھر شاہباز نے اس کیس کو بند کروا دیا کیونکہ وہ اس بچے کے اسپتال کے سارے اخراجات کی دیکھ بھال کر رہا تھا۔ اس نے جمال کے والد کو اوپر سے 70,000 روپے بھی دیے۔ زخمی بچے کے والدین نے بھی کیس بند کروا دیا کیونکہ شاہباز نے ہر طرح کی مدد کی اور بہت اچھے طریقے سے اس خاندان کے ساتھ پیش آیا جس سے سب متاثر ہوئے اور کیس بند کر دیا۔

وقت: شام جگہ: ایک اچھا ریسٹورنٹ

سفیان اور رباب کسی اچھے ریسٹورنٹ میں رات کے کھانے پر ہیں۔ رباب آج سفیان سے بہت ساری باتیں کرنا چاہتی تھی لیکن سفیان بہت خاموش تھا۔ وہ کبھی سر ہلا دیتا کبھی "ہمم" کر دیتا۔۔ بس۔

ویٹر آتا ہے اور پوچھتا ہے کہ کیا انہیں کسی چیز کی ضرورت ہے۔ سفیان ویٹر کا نام پوچھتا ہے، پھر اسے ایک لطیفہ سناتا ہے کہ کوئی گاہک بہت مزے کے کھانے سے لطف اندوز ہونے کے بعد کسی ویٹر سے ریسٹورنٹ کے کچن کا راستہ پوچھتا ہے، تو ویٹر کہتا ہے کہ آپ کو اس کی کیا ضرورت ہے، تو گاہک کہتا ہے کہ بھائی میرے پاس پیسے نہیں ہیں، آپ مجھے ایسے تو جانے نہیں دیں گے، سوچا پہلے ہی ڈش واشنگ شروع کر دوں۔

لطیفہ بہت بورنگ تھا لیکن ویٹر سن کر مسکراتا ہے، لیکن پھر شک کی نظر سے سفیان اور رباب کو دیکھتا ہے، پھر رباب اسے یقین دلاتی ہے کہ یہ صرف ایک لطیفہ تھا، ہم پیسے بھی دیں گے اور ٹپ بھی۔

جب وہ ویٹر سے باتیں کر رہے تھے، اسی لمحے رباب کا سیل فون بجتا ہے۔ رباب کال لیتی ہے۔ سارہ، رباب کی ماں کی کال تھی۔ رباب کے چہرے کا رنگ بدل جاتا ہے اور وہ اپنی امی کی آواز سن کر خاموش ہو جاتی ہے۔ سفیان نے کوشش کی کہ وہ بھی سن سکے اور جان سکے کہ کیا ہوا ہے، لیکن کچھ سمجھ نہ سکا۔۔ پھر اس نے جلدی سے رباب سے اس کا سیل فون لے لیا کیونکہ رباب بالکل خاموش اور گم سم سی ہوگئی تھی۔

سارہ، رباب کی والدہ، روتے ہوئے سفیان کو بتاتی ہے کہ شاہباز کو کچھ لوگوں نے اغوا کر لیا ہے۔

جاری ہے۔۔

Check Also

Arab Mein Molud Un Nabi (1)

By Mansoor Nadeem