Mochi
موچی

السلام علیکم، رشید خان!
وعلیکم السلام، ظفر صاحب!
رشید خان جوتے کی سلائی کر رہا تھا۔ اس کے ہاتھ سخت اور مضبوط تھے، جیسے برسوں کے تجربے نے ان میں پتھر جیسی گرفت ڈال دی ہو۔ اس کی چھوٹی سی دکان کچھ میل کے فاصلے پر ایک گلی میں تھی، پرانا محلہ، نہ کوئی خاندانی علاقہ، بس ایک جگہ جہاں روزی روٹی کا بندوبست ہو سکتا تھا۔
میں نے ہلکے سے مسکرا کر اپنا جوتا اس کے سامنے رکھا اور وہ کہنے لگا۔
"لگتا ہے آج بھی نوکری نہیں ملی؟"
میں کچھ لمحے چپ رہا، پھر صرف سر ہلا دیا۔
رشید نے جوتے کی جانچ کرتے ہوئے کہا۔
"برا مت ماننا، میں تو بس مذاق کر رہا تھا، کیونکہ نوکری تلاش کرنا آسان کام نہیں ہے، لیکن چند ہفتوں میں کوئی نہ کوئی نوکری ضرور مل جائے گی۔
"نظام ہی ایسا ہے، بھائی۔ دیکھو آس پاس، کوئی اپنے ہوش و حواس میں نہیں رہتا۔ پیسے کی دوڑ میں سب اندھے ہو چکے ہیں۔
یہ سلائی بھی ڈھیلی ہو چکی ہے، پھٹ نہ جائے کہیں، موزوں کے ساتھ انگلیاں نہ نکل آئیں۔ کہو تو یہیں ابھی ٹانک دوں؟"
میں نے کچھ دیر چپ رہ کر کہا۔
"پیسے تو آج میرے پاس اتنے نہیں، بس اتنا بنا دو کہ کام چل جائے"۔
رشید نے مسکرا کر کہا۔
"یارا، فری میں چار کیلیں لگا دیں، جوتا چمکا دیا، سلائی بھی ٹھیک ہوگئی۔ اجرت کی خیر ہے، دے جانا کبھی"۔
میں اس کی سخاوت پر خاموش ہوگیا۔ پھر میں نے کہا۔
"رشید خان، تم بہت سمجھدار لگتے ہو۔ کیا تم نے تعلیم حاصل کی تھی؟"
وہ تھوڑا چونکا، پھر ایک لمحے کو رُکا اور بولا۔
"ظفر صاحب، اسکول تو کبھی دل کو بھایا ہی نہیں۔ بچپن سے ہی پڑھائی سے بھاگتا رہا۔ سولہ سال کی عمر میں نویں جماعت چھوڑ دی۔ پھر اٹھارہ، بیس، بائیس اور خاندان نے میرے لیے ایک لڑکی ڈھونڈ لی۔ شادی ہوگئی۔ تین بچے ہوئے"۔
"پھر چھ سال بعد میری بیوی کو کھانسی ہوئی۔ پہلے لگا عام زکام ہے، لیکن بخار بڑھتا گیا، نمونیا ہوا اور پھر وہ دنیا چھوڑ گئی۔ اگر میرے پاس پیسے ہوتے تو شہر کے کسی اچھے اسپتال لے جا سکتا"۔
اس کی آواز دھیمی پڑ گئی۔
"خاندان نے دوبارہ شادی کا کہا، لیکن میں نے انکار کر دیا۔ پھر احساس ہوا کہ تعلیم کی کتنی اہمیت ہے۔ اگر میں میٹرک مکمل کرتا تو شاید آگے بھی پڑھتا اور میری زندگی کچھ اور ہوتی"۔
"لیکن اب میں چاہتا ہوں کہ میرے بچے میری طرح زندگی نہ گزاریں۔ میری دو بیٹیاں اور ایک بیٹا اسکول جاتے ہیں۔ انشاء اللہ ان کی زندگی ہم سے بہتر ہوگی"۔
"کبھی کبھی افسوس ہوتا ہے۔ میرے صوبے کے کچھ علاقوں میں تو اسکول جانا ہی منع ہے، خاص طور پر لڑکیوں کے لیے۔ لیکن کراچی میں برسوں سے رہ رہا ہوں۔ یہاں سب کو آزادی ہے، تعلیم حاصل کرنے کی۔ میں چاہتا تو پڑھ سکتا تھا، کچھ بن سکتا تھا، مگر موقع گنوا دیا"۔
میں کچھ لمحے چپ رہا، پھر سر ہلا دیا
"اب جب کراچی، لاہور اور دوسرے شہروں کے بچے تعلیم سے بھاگتے ہیں تو دل دکھتا ہے۔ جن کے پاس موقع ہے، وہ اسے ضائع کر رہے ہیں اور جن کے پاس موقع نہیں، وہ تڑپ رہے ہیں"۔
میں نے آہ بھری اور کہا۔
"ہاں، تم بالکل صحیح کہہ رہے ہو۔ جب ہمارے پاس مواقع ہوتے ہیں، ہم انہیں سنبھالتے نہیں۔ میرے والدین چاہتے تھے کہ میں انجینئر بنوں، لیکن میرا دل کاروبار کی طرف تھا۔ BBA اور پھر MBA کا خواب تھا۔ مگر جب BBA کی تیاری کر رہا تھا، والد کا انتقال ہوگیا۔ سب کچھ چھوڑنا پڑا۔ نوکری ڈھونڈی، اکاؤنٹنٹ بن گیا۔ پانچ سال کام کیا، پھر کووڈ آ گیا۔ کمپنی نے نکال دیا۔ ایک اور چھوٹی سی نوکری ملی، پارٹ ٹائم، وہ بھی ختم ہوگئی۔ اب بے روزگار ہوں، مگر آن لائن BBA کر رہا ہوں"۔
رشید نے مسکرا کر کہا۔
"ہاں، انٹرنیٹ پر لوگ پڑھ رہے ہیں، ظفر صاحب۔ آپ نے اچھا کیا"۔
پھر وہ بولا۔
"چلیں، آپ کا جوتا تیار ہے۔ نیک تمنائیں، ظفر صاحب"۔
میں نے مسکرا کر شکریہ ادا کیا اور چلا گیا۔
تین ہفتے بعد، مجھے ایک اچھی تنخواہ والی مالیاتی تجزیہ کار (Financial Analyst) کی نوکری مل گئی۔
جب میں رشید خان کا قرض ادا کرنے دوبارہ اس کی دکان پر گیا، تو وہ دکان ہی غائب تھی۔ میں نے آس پاس کے لوگوں سے پوچھا، تو کسی نے کہا:
"رشید خان دو ہفتے پہلے ایک سڑک حادثے میں چل بسا"۔
میں کچھ لمحے کے لیے خاموش ہوگیا اور بے اختیار پوچھا۔
"کیا ہوا؟"
ایک دکاندار نے بتایا۔
"ایک بچہ سڑک پر کھیلتے ہوئے بیچ میں آ گیا۔ رشید خان نے اسے بچانے کی کوشش کی۔ جیسے ہی ٹرک قریب آیا، اس نے بچے کو زور سے ایک طرف دھکیل دیا، خود ٹرک کے نیچے آ گیا"۔
"اور بچہ؟" میں نے پوچھا۔
"بچ گیا۔ رشید خان نے جان دے کر اسے بچا لیا"۔
رشید خان ایک عام سا موچی تھا، لیکن اس کے اندر انسانیت کی وہ عظمت تھی جو بہت کم لوگوں میں ہوتی ہے۔ اُس نے نہ صرف قربانی دی، بلکہ اپنے عمل سے وہ سبق دیا جو کتابوں سے نہیں سیکھا جا سکتا۔

