Tuesday, 05 November 2024
  1.  Home
  2. Blog
  3. Athar Rasool Haider
  4. Kufa Ke Musafir Aur Tareekh Ka Safar

Kufa Ke Musafir Aur Tareekh Ka Safar

کوفہ کے مسافر اور تاریخ کا سفر

یہ وہ کتاب ہے جس کا اہل نظر کو برسوں سے انتظار تھا اور کیوں نہ ہوتا، اول تو موضوع اتنا بڑا کہ جو ہماری تہذیب سے جڑے ہر فرد دل کے دل کے قریب ہے۔ دوئم لکھنے والا وہ جس کے قلم کا ایک زمانہ مداح و گواہ ہے۔ چنانچہ گزشتہ دو تین برس سے حبیب و رقیب سب منتظر تھے، اول الذکر اس اشتہاء میں کہ لکھنے والا اپنے فن سے کیونکر اس موضوع میں رنگ بھرتا ہے اور آخر الذکر اس لیے کہ اتنے پیچیدہ موضوع پر لکھنے کیلئے جو ہمت درکار ہے وہ مصنف کہاں سے لائے گا بلکہ لا بھی پائے گا کہ نہیں۔ آخر کوئی چار ماہ قبل اس ناول کا مسودہ مجھے ملا اور اسکرین پر ہی پڑھنا شروع ہوا۔

تاریخی فکشن کی مشکل یہ ہے کہ اس میں اعتدال قائم رکھنا بہت مشکل معلوم ہوتا ہے۔ پھر اگر اس میں مذہب کا عنصر بھی مل جائے تو لکھنے والے کی مشکلات اور بڑھ جاتی ہیں۔ ذرا سا قدم پھسلے تو آدمی نسیم حجازی یا صادق حسین صدیقی کی صفوں میں جا پڑتا ہے، لیکن اس کی دوسری انتہاء بھی ہے جس سے متاثرہ کچھ ناول حال ہی میں منظر عام پر آئے ہیں۔ فی الحال انہیں رہنے دیجئے۔ قصہ مختصر ایک معتدل آدمی کی طبیعت دونوں صورتوں کو قبول نہیں کرتی۔

ٹالسٹائی نے جنگ اور امن میں ایک درمیانی راستہ تلاش کیا ہے لیکن لوگ اس پر بھی الزام لگا دیتے ہیں کہ موصوف کوتوزوف کے بے جا مداح ہیں اور اس کی تعریف میں حد سے آگے نکل جاتے ہیں کہ کیا جانیے تو نے اسے کس آن میں دیکھا؟ تو اب آدمی کہاں جائے۔ اسی طرح واقعہ کربلا کی تاریخ سے تو ہم اچھی بری واقفیت رکھتے ہیں، میرے لیے اس ناول میں زیادہ دلچسپی کا موقع یہی تھا کہ ناطق صاحب تاریخی کرداروں سے کس طرح انصاف کر پاتے ہیں وہ بھی اس صورت میں جب کہ ان کی مذہب اور ناول میں مذکورہ شخصیات کے ساتھ وابستگی ڈھکی چھپی نہیں۔ لیکن وہ ناول ہی کیا جس میں ناولٹی، نہ ہو۔ جیسے جیسے ناول پڑھتا گیا یہ حقیقت کھلتی گئی کہ ناطق صاحب یہاں بھی پڑھنے والوں کو چونکانے سے نہیں چوکے۔

انرشیا قدرت کے اس اصول کا نام ہے کہ ہر شے اپنی حالت پر برقرار رہنا چاہتی ہے۔ انسانی ذہن کی بھی یہی کیفیت ہے۔ بچپن سے تربیت کچھ ان خطوط پر ہوتی ہے کہ دنیا کو اہرمن و یزداں، سیاہ و سفید، روشنی و اندھیرے میں بانٹ دیا جاتا ہے۔ گویا آدمی شیطان ہے یا فرشتہ۔ جبکہ حقیقت اس کے برعکس کچھ پیچیدہ ہے۔ واقعہ کربلا کو لے کر بھی یہ گتھی بڑی آسانی سے سلجھا دی جاتی ہے کہ یزید سراپا شر تھا، ایک دن اس کے دل میں آئی اور امام کو شہید کر دیا۔ بات ختم۔ معاملہ سادہ اور عام فہم ہو جاتا ہے، ذہن کو زیادہ حرکت نہیں دینا پڑتی۔ لیکن کیا معاملہ واقعی اتنا سادہ ہے؟ کیا واقعہ کربلا یا کوئی بھی تاریخی واقعہ بغیر کسی پس منظراور اجتماعی کوششوں کے، یوں ظہور پذیر ہو سکتا ہے؟

مختصر بات کی جائے تو یہی اس ناول کا موضوع ہے جس میں مصنف نے اس تاریخی واقعہ کے پیچھے کارفرما مادی و نفسیاتی عوامل کو سمجھنے کی کوشش کی ہے۔ زر اور تلوار کی قوت اپنی جگہ، یہ ناول بتاتا ہے کہ جب یہ سب ہو رہا تھا تو وہ تاریخی قوت کہاں خرچ ہو رہی تھی جسے عوام الناس کہا جاتا ہے۔ مکہ، مدینہ اور کوفہ کے ترکھان، لوہار، مویشی چرانے والے کس زاویے سے سوچ رہے تھے اور اشرافیہ کا "بیانیہ" کیا تھا۔ کیا واقعی ابن سعد جیسا گھاگ آدمی اتنا بے وقوف ہو سکتا ہے کہ بے وجہ ایک فوج لے کر نواسہ رسول ﷺ پر چڑھائی کر دے یا کچھ عوامل تھے جو اسے اس سمت دھکیل رہے تھے؟ اور کیا واقعی حسینؑ کو کربلا میں قتل کرنا اسی قدر آسان تھا جس طرح سمجھا جاتا ہے؟

یہ ناول ان کرداروں کو شیطان و خدا کے مرتبے سے اتار کر انسانیت کے درجے پر لے آتا ہے اور یہی وہ جگہ ہے جہاں عام انسان اس سے سیکھ سکتا ہے۔ ناول پڑھتے ہوئے احساس ہوتا ہے کہ ابن سعد، یزید یا ابن زیاد بطور شیطان پیدا نہیں ہوئے تھے۔ ہمارے تمہارے جیسے انسان تھے جو زندگی میں شر کے ساتھ چھوٹے چھوٹے سمجھوتے کرتے ہوئے آخر اس مقام پر پہنچ گئے کہ پسرِ علیؑ کے خون سے ہاتھ رنگ لیے اور ابدی تباہی کا طوق گلے میں پہن لیا۔ اس دوران ہر مرحلے پر قدرت نے ان کے سامنے دو راستے رکھے، لیکن انہوں نے فطری کمزوری کے سامنے جھکتے ہوئے ہر موڑ پر بدی کی طرف قدم بڑھایا جس کا نتیجہ اس تاریخی واقعہ کی صورت نکلا۔ ناول میں بیان کردہ ابن سعد کی ذہنی کشمکش آج بھی ہر انسان کیلئے باعث عبرت ہے۔ باعث ہدایت بھی ہو سکتی ہے، لیکن یہ انسان پر ہی منحصر ہے کہ وہ کس طرف قدم اٹھاتا ہے۔

ناول کے مکالمے اور منظر نگاری انتہائی جاندار ہیں۔ ناطق صاحب اہلِ عرب کے مختلف لہجوں پر حیران کن عبور رکھتے ہیں۔ گفتگو پر شاعری کا گمان ہوتا ہے۔ جب کہ پس منظر میں جو تصویر بنتی ہے وہ قاری کو ڈیڑھ ہزار سال پیچھے مدینے کی گلیوں میں لے جاتی ہے، وہ مدینہ جو رفتہ رفتہ اپنے زمانے کا "میٹروپولیٹن" بننے کی طرف گامزن ہے۔ قہوہ خانوں اور سراؤںیا خیموں میں چلتے پھرتے کردار آنکھوں کے سامنے نظر آتے ہیں۔

ایک اور اہم بات یہ کہ ناول مصنف نے خود چھاپا ہے اور دیکھنے والے کہتے ہیں کہ بہت اچھا چھپا ہے۔ براہ راست خریدا جائے تو مصنف کا معاشی فائدہ بھی ہو سکتا ہے اور یہ بات بطور انسان اس کے حق میں ہے۔ صفحات 822 جبکہ قیمت 2500 ہے جو اس لحاظ سے بہت کم ہے کہ اس میں ذہن و روح کا نفع اس سے کہیں زیادہ ہے۔ پھر ڈاک خرچ وغیرہ بھی سب اسی قیمت میں شامل ہے۔

Check Also

Dr. Israr Ahmed

By Zubair Hafeez