Tuesday, 26 November 2024
  1.  Home
  2. Blog
  3. Asma Hassan
  4. Karen Kuch Aisa Ke Dunya Karna Chahe Kuch Aap Sa

Karen Kuch Aisa Ke Dunya Karna Chahe Kuch Aap Sa

کریں کچھ ایسا کہ دنیا کرنا چاہے کچھ آپ جیسا

کسی نے کیا خوب کہا ہے کہ تعلیم ہی سب کچھ نہیں ہوتی اصل چیز تربیت، اقدار اور وصف ہوتا ہے جو اہمیت رکھتا ہے۔ انہی خصوصیات کے دم پر کر دِکھا کچھ ایسا کہ دنیا کرنا چاہے آپ کے جیسا۔۔

تعلیم تو ہم سب حاصل کرتےہیں۔ استاد سب کو ایک جیسا ہی علم بانٹتا ہے اور ایک جیسا ہی وقت دیتا ہے۔ ایک جیسا ہی ماحول سب کو ملتا ہے لیکن سب طلباء کے نتائج مختلف ہوتے ہیں کیونکہ ان کی ذہنی قابلیت اور صلاحیتیں مختلف ہوتی ہیں۔ اسی ماحول سے نکل کر طلباء مختلف شعبوں کو اختیار کرتے ہیں اور اپنا لوہا منواتے ہیں۔

اسکول اور اساتذہ طلباء کی تربیت کی ذمہ داری نہیں لیتے۔ ان کا مؤقف ہوتا ہے کہ ہمارا کام نصاب کو پورا کرنا ہے، پڑھانا ہے، ہمارے پاس اتنا وقت نہیں کہ ان کی تربیت پر دھیان دے سکیں مزید یہ کہ یہ والدین کی ذمہ داری ہے۔

یہ بھی سچ ہے کہ اولاد تو والدین کی ہے تو تربیت بھی انہی کی ذمہ داری بنتی ہے لیکن اس حقیقت سے ہم اپنا دامن نہیں چھڑا سکتے کہ طلباء اپنے اساتذہ کو اعلیٰ و ارفع مخلوق نہ صرف سمجھتے ہیں بلکہ دل سے تسلیم بھی کرتے ہیں۔ اساتذہ کی بات کو نہ صرف غور سے سنتے ہیں بلکہ اس پر عمل بھی کرتے ہیں۔ ایک طرح سے معلم بچوں کے لیے مثال، نمونہ (رول ماڈل) کی حیثیت رکھتا ہے۔

ایک استاد پڑھانے کے دوران باتوں ہی باتوں میں طلباء و طالبات کی تربیت کر جاتا ہے لیکن اس کے لیے استاد کا ذمہ دار ہونا اہم ہوتا ہے کہ اس کو احساس اور ادراک ہو کہ اس پر کیا کیا ذمہ داریاں عائد ہوتی ہے۔ زیادہ تر تعلیمی اداروں میں بچوں کا موازنہ یا تفریق کی جاتی ہے یا پرکھا جاتا ہے کہ کون کیسا برتاؤ کرتا ہے اور اُس کے گھر کا ماحول کیسا ہے۔

کہا اور مانا جاتا ہے کہ ایک بچہ اپنے گھر، ماحول اور تربیت کی نمائندگی کر رہا ہوتا ہے۔ وہ جہاں بھی جاتا ہے اس کی تربیت ہی نظر آتی ہے لیکن والدین اکثر یہ شکایت کرتے نظر آتے ہیں کہ اسکول میں آخر سکھایا کیا جاتا ہے۔ ہم اتنی فیسیں کس لیے دے رہے ہیں۔ کیا یہ تمیز سکھائی ہے؟ بظاہر تربیت کی کوئی بھی ذمہ داری لینے کو تیار نہیں ہوتا۔

ہمیں اس حقیقت کو تسلیم کرنا چاہئیے کہ تربیت گھر سے ہوتی ہے اور گھر سے ہی اقدار، تہذیب احساس، محبت، برتاؤ، سبھاؤ، رحم دلی، دریا دلی گفتگو کا انداز، سیکھا جاتا ہے یا یہ سب ہمارے خون کا حصہ ہوتا ہے۔ ہاں استاد یا تعلیمی ادارے اس میں اپنا ایک چھوٹا سا کردار ادا کر سکتے ہیں۔

تعلیم حاصل کرنے کا یہ مقصد ہرگز نہیں ہے کہ ہم میں انسانیت آ گئی ہے یا وصف پیدا ہو گئے ہیں کیونکہ بڑے بڑے پڑھے لکھے لوگ جاہل ہوتے ہیں۔ ان کو گفتگو کے آداب تک معلوم نہیں ہوتے۔ منہ کھولتے ہیں تو سارا امیج چکنا چور ہو جاتا ہے۔

اسی طرح بعض لوگ دنیا داری میں بہت اچھے ہوتے ہیں لیکن گھر میں ان کا رویہ انتہائی غیر مناسب اور نا زیبا ہوتا ہے۔ گالم گلوچ، لڑائی جھگڑا، مار کٹائی، بدتمیزی، بد تہذیبی ان کا خاصہ ہوتا ہے کیونکہ باہر تو وہ لبادہ اوڑھ لیتے ہیں لیکن گھر میں ان کی اصلیت کیا ہے صرف گھر والے ہی بہتر جانتے ہیں۔ کہتے ہیں نا کہ "راہ پیا جانے یا وا پیا جانے"۔

تعلیم یا ڈگری کسی کے ماتھے پر نہیں لکھی ہوتی کہ فلاں ڈگری ہے یا فلاں ادارے سے پڑھا ہے یا فلاں اعلی عہدے پر فائز ہے بلکہ یہ سوال بہت بعد میں آتے ہیں سب سے پہلے ہمارا رویہ، برتاؤ، چلنے پھرنے کا انداز، پہننے اوڑھنے کا سلیقہ، گفتگو کا انداز اور طور طریقے ہی ہوتے ہیں جس سے لوگ متاثر ہوتے ہیں۔ انہی اوصاف سے پتہ چلتا ہے کہ آپ میں کتنی انسانیت ہے۔ یاد رہے کہ اچھے سلوک کے حقدار صرف انسان ہی نہیں بلکہ جانور بھی ہوتے ہیں۔

ہمارے پیارے نبیﷺ کا فرمان ہے: تم اہلِ زمین پر رحم کرو، آسمان والا تم پر رحم کرے گا۔

ہم بحیثیت انسان بہت خود غرض ہیں ہر معاملے میں ہم صرف اپنا ہی فائدہ سوچتے ہیں۔ چاہے اس سے دوسروں کا نقصان ہی کیوں نہ ہو جائے اس کی ہمیں پرواہ تک نہیں ہوتی۔ اگر کوئی بیمار ہے تو ہم بے حس بن جاتے ہیں تاکہ ہمارا کام نکلتا رہے۔ ہم حتٰی کہ روزمرہ کے کاموں میں بھی لالچ اور خودغرضی کی انتہا تک پہنچ جاتے ہیں۔ ملازم ہے تو اس سے بھی ایسے برتاؤ کریں گے کہ جیسے وہ ہمارا زرخرید غلام ہے۔ اس کی بے عزتی کرنا، جھڑکنا، ہمارا اولین فرض ہے۔

ہم بھول جاتے ہیں کہ ہمیں کسی مظلوم کی آہ سے بچنا چاہئیے۔ آج اللہ تعالٰی نے ہمیں نوازا ہوا ہے تو کل وہ یہ تمام عنایتیں اور آسائیشیں ہم سے واپس لینے پر بھی قدرت رکھتا ہے۔ اگر کسی کو شہرت یا کوئی عہدہ مل جاتا ہے تو اس میں رعونت آ جاتی ہے وہ لوگوں کو حقارت کی نگاہ سے دیکھنے لگتا ہے۔ یہ یکسر فراموش کر دیا جاتا ہے کہ یہ دولت، شہرت، عزت و مقام سب عطا کرنے والا تو ربِ کائنات ہے اور ہمارے ہاتھ میں تو کچھ بھی نہیں ہے۔ کہتے ہیں کہ جب اللہ آپ کو نوازے تو عاجزی اختیار کر لو، شکرگزار بن جاؤ اور بانٹنا شروع کر دو کیونکہ آپ نے خود سے کچھ نہیں دینا، صرف اُس کے عطا کیے ہوئے میں سے دینا ہے۔ پھر چاہے وہ دولت ہو، علم ہو، تجربہ ہو یا کچھ اور، بس اپنے حصے کی شمع روشن کر تے جاؤ تاکہ کسی دوسرے کا دیا جل سکے۔

کبھی بھی اتنے خود غرض نہ ہو جاؤ کہ دوسرے کی تکلیف، آنسو، آہ سنائی و دکھائی نہ دے۔ اپنے دل کو کشادہ رکھو اور خواہشات کو مختصر تاکہ کسی کے لیے تکلیف کا باعث نہ بنیں۔

ہمیں دوسروں میں تو نقص نظر آتے ہیں لیکن کبھی اپنی غلطی محسوس نہیں ہوتی۔ اس لیے ہمیں تنہائی میں اپنا محُاسبہ کرنا چاہئیے کہ ہم کہاں غلط ہیں۔ ہمیں انجانے میں بھی کسی کا دل نہیں دُکھانا چاہئیے۔ دوسروں کی تکلیف کا احساس کرنا چاہئیے اور اگر کسی پر مہربانی کر دی ہے تو اس کو نیکی ہی رہنے دیا جائے اس کا پرچار نہ کیا جائے۔ نہ صرف انسانوں بلکہ چرند پرند اور جانوروں پر بھی رحم کرنا چاہئیے۔ ان کے بھی احساسات ہوتے ہیں۔

ہم کیسے انسانوں اور جانوروں کے ساتھ برتاؤ کرتے ہیں یہ ہماری شخصیت کا حصہ اور آئینہ دار ہوتا ہے۔ اگر کسی کو پرکھنا ہو تو یہ دیکھ لیں کہ وہ اپنے سے چھوٹے، ماتحت یا بے زبان جانوروں کے ساتھ کیسا برتاؤ کرتا ہے۔ ہمیشہ یاد رکھیں کہ یہ سب ہمیں تعلیم نہیں سیکھاتی نہ ہی کوئی ادارہ سکھاتا ہے بلکہ یہ ہماری تربیت یا اقدار کا حصہ ہوتا ہے۔ یہ جواہر ہمیں اپنے بڑوں سے ملتے ہیں اور نسل در نسل منتقل ہوتے ہیں۔ لہذا ہمیں اپنی اولاد کے لیے بہتر انسان بن کر دکھانا ہے تاکہ ان کی تربیت اسی طرز پر ہو سکے اور ہماری اولاد اچھا اور باوقار انسان بننے کے ساتھ ساتھ ہمارے لیے صدقہ جاریہ بھی بن سکے۔ دنیا میں کچھ ایسا کرکے جانا ہے کہ لوگ ہمارے جیسا بننا اور کرنا چاہیں۔

Check Also

Dimagh To War Gaya

By Basham Bachani