Wednesday, 27 November 2024
  1.  Home
  2. Blog
  3. Asma Hassan
  4. Hum Insano Ki Bhi Qadar o Qeemat Hoti Hai

Hum Insano Ki Bhi Qadar o Qeemat Hoti Hai

ہم انسانوں کی بھی قدروقیمت ہوتی ہے

جیسے ہیرے کی پہچان صرف جوہری کو ہوتی ہے بالکل اسی طرح ہم انسانوں کی بھی ایک الگ پہچان اور قدر و قیمت ہوتی ہے جو ہر انسان نہیں کر سکتا کیونکہ یہ کرم بھی خاص لوگوں پر ہی ہوتا ہے۔

قدرت نے ہم تمام انسانوں کو منفرد صلاحیتوں، توانائیوں کے ساتھ پیدا کیا ہے۔ کوئی حساب کتاب میں ماہر ہے تو کوئی اردو دان ہے، کسی کی انگریزی بہت اچھی ہے تو کوئی بولنے کا، دل موہ لینے کا ہنر جانتا ہے۔ اسی طرح ہم سب کے سوچنے، سمجھنے کا انداز بھی مختلف ہوتا ہے۔ جیسے قابلیت کا معیار بھی ایک جیسا نہیں ہوتا بالکل اسی طرح پسند و نا پسند، دلچسپی، رجحانات بھی سب ایک دوسرے سے مختلف ہوتے ہیں۔

صلاحیتیں ہم سب میں موجود ہوتی ہیں لیکن ان کو تلاش کرنا سب سے اہم ہوتا ہے۔ کچھ لوگ اپنے چھپے ہنر کو، ذہانت کو جلدی دریافت کر لیتے ہیں جبکہ بیشتر لوگ اپنی ساری زندگی گزار دیتے ہیں لیکن جان نہیں پاتے کہ مالکِ کائنات کی جانب سے ان کو کونسی خاص صلاحیت یا قابلیت عطا کی گئی ہے۔ قابلیت کا، کسی ہنر کا ادراک ہونا یا دلچسپی کس چیز میں ہے صرف یہ جان لینا کافی نہیں ہوتا بلکہ ہمیں اس خاص اور منفرد صلاحیت پر کام کرنا پڑتا ہے، وقت کے ساتھ اسے نکھارنا پڑتا ہے۔ مثال کے طور پر جب نیا فرنیچر بنایا جاتا ہے تو وہ اتنا جاذِبِ نظر نہیں ہوتا جب تک اسے پالش نہ کیا جائے، لہذا اس کی خوبصورتی میں اضافہ اس پالش سے ہوا۔

اسی طرح اگر کوئی آرٹسٹ پینٹنگ (مصوری یا تصویر کشی کرتا ہے) بناتا ہے پھر جب تک اس کو فنشنگ ٹچ نہیں دیتا اس کی خوبصورتی ابھر کر سامنے نہیں آتی۔ کالم نگار ایک کالم لکھتا ہے لیکن اگر وہ اَغلاط سے بھرپور ہو اور لفظوں میں چاشنی یا ترتیب، مطابقت نہ ہو، ربط نہ ہو تو کیا وہ اپنے پڑھنے والے کو باندھ سکے گا یا ان کی توجہ کھینچ سکے گا؟ جب تک ہم کسی دوسرے کی توجہ حاصل نہیں کر لیتے اس وقت تک ہماری کسی قابلیت کا صلاحیت کا کوئی فائدہ نہیں ہوتا۔ لیکن یاد رکھیں کہ بھینس کے آگے بین نہیں بجانا ہوتا اپنی صلاحیتوں کا پرچار وہیں کرنا ہوتا ہے جہاں اس کی پہچان اور قدر ہو۔

یہ بہت ضروری ہے کہ اپنی صلاحیتوں کا درست استعمال کیا جائے تاکہ ہم اپنے لیے اور دوسروں کے لیے آسانیاں پیدا کر سکیں۔ یہ بھی حقیقت ہے کہ ہم میں سے بیشتر لوگوں کو اپنی صلاحیتوں کو نکھارنے کا موقع نہیں ملتا اور اگر مل جائے تو ہمارے اردگرد ایسے لوگ موجود ہوتے ہیں جن کو ہمارے کام، لگن، جوش و جنون اور خوابوں سے کوئی لینا دینا نہیں ہوتا نہ ان کی نظر میں کوئی اہمیت ہوتی ہے، نہ ہی وہ لوگ آپ کو عزت اور قدر کی نگاہ سے دیکھتے ہیں۔ جب کوئی سمجھ ہی نہیں پاتا تو ساتھ کھڑے ہونے یا حوصلہ بڑھانے کا تو سوال ہی پیدا نہیں ہوتا۔

کہتے ہیں نا کہ گھر کی مرغی دال برابر ہوتی ہے۔ کبھی کبھی ایسا بھی ہوتا ہے کہ اپنے گھر والے ہی ہمارے ساتھ کھڑے نہیں ہوتے اور وہی اپنے ہی سب سے بڑی رکاوٹ بن جاتے ہیں۔ سب کی ترجیحات مختلف ہوتی ہیں لہذا وہ خوابوں کی اہمیت کو سمجھ نہیں پاتے۔

کبھی ایسا بھی ہوتا ہے کہ ساتھ رہنے والے رشتے دار مخلص نہیں ہوتے وہ آپ کو آگے بڑھتا، ترقی کرتا دیکھ نہیں سکتے۔ اسی لیے وہ آپ کی صلاحیتوں یا قابلیت کو دل سے تسلیم نہیں کرتے۔ جب مانتے ہی نہیں تو ان کو احساس بھی نہیں ہوتا۔ جب احساس نہ ہو تو ہمارے کہے تمام الفاظ بے کار جاتے ہیں، ساری دلیلیں، حوالے، ڈگریاں، ذہانت، قابلیت رائیگاں جاتی ہیں۔ ہماری خوشی حتٰی کہ ہماری تکلیف تک ان کو نظر نہیں آتی۔ ہمارے آنسو بھی ان کے دل پر کوئی اثر نہیں کرتے۔

یہ منحصر ہوتا ہے کہ ہمارے سامنے کون ہے یا ہم کس سے اپنی صلاحیتوں یا قابلیت کی پذیرائی چاہتے ہیں۔ اگر دیوار میں سر مارتے رہیں تو وہاں کوئی دروازہ نہیں کھلے گا، اسی طرح ہم اگر غلط راہ کے مسافر بن جائیں اور محنت کرتے جائیں لیکن نتائج حاصل نہ ہوں تو اس کا ہرگز یہ مطلب نہیں ہے کہ ہم میں صلاحیت موجود نہیں بلکہ اس کا مطلب یہ ہے کہ ہمارا اپنایا ہوا طریقہ درست نہیں یا ہمارا چنا ہوا راستہ ہمارے لیے مناسب نہیں ہے۔

اسی طرح اگر ایک لکھاری اپنی زندگی کے تجربات کا نچوڑ لکھے اور لے کر پرائمری اسکول کے بچوں کے پاس چلا جائے تو کیا وہ اسکول کے بچے ان تجربات کو سمجھ سکیں گے؟ ہرگز نہیں۔۔ چاہے اس نے کتنا ہی باکمال کیوں نہ لکھا ہو لیکن اس کا لکھا بےکار جائے گا کیونکہ سامنے سننے والا اس معیار کا نہیں ہے۔ اسی طرح اگر ایک مصنف اپنا بہترین کام (یعنی شاہکار) لے کر شائع کروانے کی غرض سے ناشر کے پاس جائے اور ناشر اس کی طباعت سے انکار کر دے اور مسودے کو کوڑے دان میں پھینک دے تو اس کا ہرگز یہ مطلب نہیں کہ وہ لکھا اچھا نہیں گیا، ہاں اس ناشر کی نظر میں اس کی اہمیت نہیں ہے۔ یہاں بھی وہی بات آ جاتی ہے کہ جو فیصلے لینے والے ہیں، اس کرسی پر بیٹھے ہیں وہ مختلف سوچ کے حامل ہو سکتے ہیں۔

اسی طرح جب ہم اپنے احساسات و جزبات کا، محبت کا کسی سے اظہار کرتے ہیں تو ہمیں وہ اہمیت نہیں ملتی، سامنے والا انسان تمسخر بنا لیتا ہے کیونکہ ہم تو اپنے جزبات میں کھرے ہیں لیکن ان کے دل میں وہ قدر نہیں ہوتی۔ اس کا مطلب یہ بھی ہے کہ یہ درست دروازہ نہیں ہے اس لیے کھلے گا بھی نہیں۔

ہمیں اپنی صلاحیتوں پر شک کرنے کی بجائے، ہمت ہارنے کی بجائے، مایوس ہونے اور ڈپریشن کا شکار ہونے کی بجائے اپنا صحیح والا دروازہ تلاش کرنا چاہئیے۔ اپنی قابلیت کی بے قدری نہ کریں اور غلط لوگوں سے توقعات وابستہ نہ کریں۔ ہمیں اپنی توانائیوں کو درست سمت میں لگانے کا ہنر سیکھنا چاہئیے۔ جو لوگ آپ کو اہمیت نہ دیں، آپ کی کاوشوں کا تمسخر اُڑائیں، روڑے اٹکائیں ان سے فاصلہ بڑھا لیں تاکہ مایوسی سے بچ سکیں۔

اپنے اردگرد ایسے لوگ شامل کریں جو حوصلہ بڑھانے والے ہوں۔ جو بے شک تعریف نہ کریں لیکن فضول تنقید کی بجائے رہنمائی ضرور کر سکیں۔ آپ کو تراش سکیں اگر تراشنے کا کام نہ کر سکیں تو کم از کم دفنانے کا کام نہ کریں۔ جب ہم خود کو اہمیت دیتے ہیں تبھی ہماری قدر و قیمت میں اضافہ ہوتا ہے ورنہ دنیا بھی ہمیں پیروں تلے روند کر آگے چلی جاتی ہے۔ فیصلہ ہمارے اپنے ہاتھ میں ہوتا ہے۔

Check Also

Ghair Yahudion Ko Jakarne Wale Israeli Qawaneen (2)

By Wusat Ullah Khan