Hosla Afzai, Ak Behtareen Tohfa
حوصلہ افزائی، ایک بہترین تحفہ
جو طوفانوں میں پلتے جا رہے ہیں
وہی دنیا بدلتے جا رہے ہیں
(جگر مراد آبادی)
بقول نپولین "صلاحیت مواقع کے بغیر کچھ نہیں ہے"۔
قدرت نے ہم سب انسانوں کو مختلف صلاحیتوں اور توانائیوں سے نوازا ہے۔ ہر ایک کے دیکھنے کا زاویہ بھی مختلف بنایا ہے۔ چونکہ سب کی قابلیت منفرد ہے اس لیے کسی کا کسی دوسرے سے مقابلہ یا موازنہ نہیں کیا جا سکتا۔ کچھ لوگ لکھنا جانتے ہیں تو وہیں کچھ لوگ بولنے میں ماہر ہوتے ہیں۔ کوئی رنگوں سے کھیلتا ہے تو کوئی حساب کا پکا ہوتا ہے غرض ہر ایک کو مالکِ کائنات نے مختلف اور نایاب بنایا ہے۔
اگر ہم ایک گھر کی مثال لیں جہاں سب بہن بھائیوں کی تربیت ایک ہی طرز پر کی جاتی ہے۔ ماحول، وسائل والدین، گھر والے سب ایک جیسے ہوتے ہیں لیکن پھر بھی بچے ایک دوسرے سے مختلف ہوتے ہیں۔ ان کے بولنے کا انداز، کام کرنے کا طریقہ، فیصلہ لینے کی قوت، کارکردگی غرض وہ ہر لحاظ سے ایک دوسرے سے الگ ہوتے ہیں۔ بالکل اسی طرح ایک جماعت میں ایک ہی استاد پچس سے تیس طلباء کو ایک ہی وقت میں، ایک ہی انداز میں اور ایک ہی کام کرواتا ہے، ایک ہی طرح سے پڑھاتا ہے لیکن سب بچے مختلف نتائج دیتے ہیں کیونکہ سب کی قابلیت، ذہانت منفرد ہوتی ہے۔ ان کے سوچنے اور سمجھنے کا معیار مختلف ہے۔ لیکن جو چیز ہم سب میں مشترک ہوتی ہے وہ سراہے جانے کی خواہش ہے۔
ماں اور استاد کے کہے الفاظ بچوں کے ذہن پر بہت گہرا اثر ڈالتے ہیں۔ یہ ان کی شخصیت کے معمار ہوتے ہیں۔ ایک استاد پوری جماعت کے سامنے تھپکی دیتا ہے، شاباش دیتا ہے یا کام کی تعریف کرتا ہے یا حوصلہ افزاء جملہ بولتا ہے تو طلباء کا اعتماد کئی گنا بڑھ جاتا ہے۔ اس میں آگے بڑھنے کی لگن، کچھ کر دکھانے کی امنگ جاگ جاتی ہے۔ اسی طرح ماں کے الفاظ کسی جادو سے کم حیثیت نہیں رکھتے۔ ایک ماں ہی بہتر جانتی ہے کہ کب، کیسے اپنے بچے کا حوصلہ بڑھانا ہے۔ اس کی صلاحیتوں کو کیسے نکھارنا ہے، اس کو کیسے پروان بھرنے کے لیے تیار کرنا ہے تاکہ وہ پنکھ پھیلا کر اڑے اور آسمان کی بلندیوں کو چھو سکے۔
ایک چھوٹا سا بچہ ہر کام کرنے سے پہلے اور بعد میں اپنی ماں کی طرف دیکھتا ہے وہاں سے جب اسے داد، یا گرین سگنل ملتا ہے تو وہ خوش ہو جاتا ہے۔ ماں کے الفاظ کہ "تم کر سکتے ہو سے لے کر شاباش بہت زبردست کام کیا ہے۔ مجھے تم پر فخر ہے، تک کا سفر بہت کٹھن ہوتا ہے لیکن حوصلہ افزاء جملے، تعریف، اعتماد ہی ہے جو اندھیرے میں دیے کا کام کرتے ہیں اور وہ ننھا سا دیا اپنی روشنی سے ہر طرف اجالا کر دینے کی صلاحیت رکھتا ہے۔ بس اِس دیے کو بجھنے سے بچانا ہوتا ہے تاکہ وہ وقت سے پہلے گلُ نہ ہو جائے۔
اب ہوائیں ہی کریں گی روشنی کا فیصلہ
جس دیے میں جان ہوگی وہ دیا رہ جائے گا
(محشر بدایوانی)
اپنی قابلیت کو منوانے کے لیے موقع مل جانا بھی بہت بڑی نعمت ہے۔ بعض حالات میں یہ مواقع ہمیں خود پیدا کرنے پڑتے ہیں کیونکہ بہت کم لوگ ہوتے ہیں جو حوصلہ افزائی کرنے والے ہوتے ہیں یا قدر دان ہوتے ہیں۔
یہ حقیقت ہے کہ تعریف اور حوصلہ افزائی کی ضرورت صرف بچوں کو نہیں ہوتی بلکہ تمام لوگوں کو ہوتی ہے چاہے وہ عمر کے کسی بھی حصے میں ہوں، پھروہ کام کوئی سا بھی کریں، شعبہ کوئی سا بھی ہو، انہیں انتظار ہوتا ہے کہ ان کے کام کی تعریف ہو، سراہا جائے۔ اب سَتائِش یا داد کس کو بُری لگتی ہے۔
یہ انسانی فطرت ہے کہ جب کسی کو ہمارا کام پسند آتا ہے اور تعریف کے دو بول بولتا ہے یا تگ و دو کو، ریاضت کو سراہتا ہے تو ہمارا سیروں خون بڑھ جاتا ہے اور ہماری محنت وصول ہو جاتی ہے، پھر کام جتنا بھی مشکل کیوں نہ ہو، کرنے میں مزہ آتا ہے اور دل بھی کرتا ہے کہ کام کیا جائے اور داد وصول کی جائے۔ حوصلہ افزاء الفاظ اور تعریفی کلمات نہ صرف حوصلہ بڑھا دیتے ہیں بلکہ مزید بہتری لانے کی امنگ میں بھی اضافہ کرتے ہیں۔
اس کے برعکس اگر ہم ہر وقت کسی کے کام میں نقص نکالیں، نظر صرف کیڑے نکالنے پر ہو، نیچا دکھانے پر ہو اور بس ہر وقت اسے برا بھلا کہیں تو وہ شخص دل برداشتہ ہو کر کام کرنا ہی چھوڑ دے گا۔
اگر ایک لکھاری لکھ رہا ہے اور لوگ اس کو پڑھتے ہیں اپنی رائے دیتے ہیں، سراہتے ہیں تو اس معمولی سے ایک عمل سے لکھنے والے کا حوصلہ بڑھ جاتا ہے۔ پھر وہ مزید اپنے کام میں بہتری لاتا ہے تاکہ لوگوں کے معیار پر، ان کی امیدوں پر پورا اتر سکے کیونکہ یہ تحریک اس کو ان الفاظ سے ملی جس نے اس کا حوصلہ بڑھایا۔ ہاں تعریف ایسی ہونی چاہئیے کہ وہ جھوٹ نہ لگے، یا چاپلوسی کے زُمرے میں نہ آئے بلکہ حوصلہ بڑھانے والی اور اصلاحی ہوتاکہ مثبت نتائج حاصل ہو سکیں۔
اسی طرح گھریلو خواتین ہیں جو سارا سارا دن گھر کے کام کاج میں مصروف رہتی ہیں۔ بچوں کا کھانا پینا، ان کی تربیت، پڑھائی لکھائی، گھر والوں کا خیال، ساس سسر اور دیگر گھر والوں کی خدمت کرنا، مہمان نوازی کرنا لیکن آخر میں ان کو سننے کو ملتا ہے کہ تم سارا دن کرتی کیا ہو؟ کھانے میں نقص نکالنا، بات بات پر طعنے دینا گھریلو خواتین کو توڑ کر رکھ دیتا ہے۔ وہ مرجھا سی جاتی ہیں۔ ڈپریشن کا شکار ہو جاتی ہیں۔ اگر ان کی محنت کو سراہا جائے اور کھانے کی، کام کی تعریف کر دی جائے تو وہ نہ صرف بہ خوشی سب کام کر لیں گی بلکہ گھر کو جنت بھی بنا دیں گی۔
اگر ہم اپنے اردگرد نظر دوڑائیں تو ایسے بہت سارے لوگ نظر آئیں گے جو صلاحیت تو رکھتے ہیں لیکن ان کے اندر ڈر و خوف ہوتا ہے جو انہیں پہلا قدم اٹھانے سے روکتا ہے۔ ایسے میں ہماری ایک تھپکی، حوصلہ افزاء جملہ ان کو خاص بنا دیتا ہے۔ یہ ہمارے الفاظ ہی ہوتے ہیں جو ہمت بڑھانے، کچھ کرنے، آگے بڑھنے کی خواہش کو جَلا بخشتے ہیں۔
ہمارا ایک لفظ، ایک جملہ کسی کی زندگی بدل سکتا ہے۔ لہذا ہمیں ہمیشہ اپنا مثبت کردار ادا کرنا چاہئیے تاکہ اپنی باتوں سے، دوسروں کے اندر امید کی کرن جگا سکیں۔ ہمیں حوصلہ شکن نہیں بلکہ حوصلہ بڑھانے والا بننا چاہییے۔
ہمیں ایسا بننا چاہئیے کہ لوگوں کو ہم سے مل کر خوشی محسوس ہو، اگر وہ مایوسی میں گھرے ہیں تو ہمارے الفاظ، ہمارا ساتھ ان کو اس مایوسی سے نکالنے میں مددگار ثابت ہو۔ ان کو ہم سے مثبت وائبز ملیں۔ ان کے حوصلے بلند ہو سکیں۔ کسی نے کیا خوب کہا ہے کہ حوصلہ افزائی سے وہ سب بھی ممکن ہو جاتا ہے جو کہ ناممکن ہو۔ ہمیں لوگوں کی بروقت مدد کرنی چاہئیے تاکہ وہ کامیابی کی منازل طے کر سکیں۔ جب ہم دوسروں کے لیے آسانیاں پیدا کرتے ہیں تو خالقِ کائنات ہمارے لیے بھی کامیابی کے دروازے کھول دیتا ہے۔ خود کو بدل کر دیکھیں دوسروں کی تعریف کرنا ان کو سراہنا سیکھیں۔
ہمیشہ یاد رکھیں کہ جو خوشی ہماری وجہ سے کسی کے چہرے پر آتی ہے وہ انمول ہوتی ہے۔ خوش رہیں، آسانیاں اور خوشیاں بانٹنے والے بنیں۔