Friday, 10 January 2025
  1.  Home
  2. Blog
  3. Asma Hassan
  4. 19Wa Saalana Kutub Mela, Expo Center Karachi Guzashta Tamam Record Toot Gaye

19Wa Saalana Kutub Mela, Expo Center Karachi Guzashta Tamam Record Toot Gaye

19واں سالانہ کتب میلہ، ایکسپو سینٹر کراچی گزشتہ تمام ریکارڈ ٹوٹ گئے

کتابوں سے عشق آج کا نہیں ہے بلکہ یہ صدیوں سے چلا آ رہا ہے۔ کتابوں کے میلے سجتے ہیں اور محسوس ہوتا ہے جیسے کسی جشن کا سماں ہو۔ کتابوں کو خریدنے کی خوشی، ان کی مہک اور پڑھنے کا نشہ کیا ہوتا ہے یہ وہی بہتر جانتے ہیں جو کتابوں کی محبت میں گرفتار ہوتے ہیں۔

اس موضوع پر بہت کچھ لکھا جا چکا ہے لیکن آج پھر قلم اٹھانے کو دل مچلا، جب کراچی انٹرنیشنل بک فئیر کی خبر نے تہلکہ مچایا۔ کیا ہی خوبصورت بات ہے کہ کتابوں کے اس میلے میں لوگوں کا ایک جَم غَفِیر دیکھنے کو ملا۔ ہم آئے دن سنتے ہیں کہ فلاں برینڈ پر یا فلاں مال میں لوگ سیل پر ٹوٹ پڑے، دھکم پیل ہوئی لیکن کیا یہ کبھی سنا ہے کہ کتابوں کے میلے میں کتب ہی ختم ہوگئیں۔ واہ کیا سماں ہوگا سوچ کر ہی دل باغ باغ ہوگیا کہ آج بھی باشعور لوگ، کتابوں کے رسیا، علم کے جیالے کتابوں سے اپنی پیاس بجھا رہے ہیں۔ پھر کیوں نہ کتابیں شائع ہوں، پھر کیوں نہ اس طرح کے میلے ہر ضلع، ہر شہر، ہر گلی، ہر کوچے میں سجیں۔

ایکسپو سینٹر میں انیسواں کتب میلہ سجا۔ انیسواں اس لیے کیونکہ 2020 میں کرونا کی وبا کی وجہ سے یہ دلکش میدان سج نہ سکا تھا۔ 2005 میں پہلا کراچی انٹرنیشنل بک فئیر منعقد ہوا تھا اور آج تک اس نے اپنی خوبصورت روایت کو برقرار رکھا ہوا ہے۔ حیران کن بات یہ ہے کہ کراچی انٹرنیشنل بک فئیر میں کتابوں کے اسٹال ایک سال پہلے سے ہی بک ہو جاتے ہیں۔

12 دسمبر سے 16 دسمبر تک کتابوں کے اس میلے نے اپنا جلوہ دکھایا۔ جمعرات سے پیر اس لیے دن رکھے جاتے ہیں کہ کاروباری اور تعلیمی اداروں والے باآسانی اپنی مصروفیات میں سے وقت نکال کر کتب کی خریداری کے لیے آ سکیں۔ عام طور پر ایسی سرگرمیوں میں ہفتہ یا اتوار کو لوگوں کا رش دیکھنے میں آتا ہے لیکن اس بار پانچوں دن لوگوں کا تانتا بندھا رہا۔ مدرسوں، اسکولوں، کالجوں اور یونیورسٹیوں کے طلباء و طالبات بسوں میں گاڑیوں میں جوق در جوق کتب کی محبت میں کھنچے چلے آئے یہاں تک کہ ٹوٹی اور زیرِ تعمیر سڑکوں کے باوجود ٹریفک کا ایک اژدھام دیکھنے کو ملا۔ لوگوں کی بڑی تعداد ٹریفک کی دشوار صورتحال کی وجہ سے اس دفعہ کتابوں کی خریداری سے محروم ہو گئے جس کا ان کو دلی افسوس بھی ہے کیونکہ لوگ پورا سال اس میلے کا انتظار کرتے ہیں۔ پیسے جوڑتے ہیں، بچت کرتے ہیں تاکہ اپنی پسندیدہ کتابیں رعایت پر حاصل کر سکیں۔

اطلاعات کے مطابق کراچی کے عالمی کتب میلے میں ریکارڈ ساڑھے پانچ لاکھ سے زائد افراد نے شرکت کی اور کتابوں کے فروخت کا نیا ریکارڈ قائم ہوا جس میں کتابوں کے اسٹاکس ہی ختم ہو گئے۔ لوگوں کا اس قدر رش تھا کہ تِل دھرنے کو بھی جگہ نہیں تھی۔

کون کہتا ہے کہ یہ کتابوں سے عشق کی آخری صدی ہے۔ آج کے ڈیجیٹل اور سوشل میڈیا کے دور میں بھی لوگ کتابیں پڑھنا چاہتے ہیں اور ایسے میلوں یا نمائش کے انتظار میں ہوتے ہیں جہاں کم پیسوں یا رعایت پر زیادہ سے زیادہ کتب خریدی جاسکیں اور اپنی کتب بینی کی اس آگ کو بجھا سکیں۔

انیسویں کتب میلے ایکسپو سینٹر کراچی میں کمشنر کراچی نے کہا کہ کراچی کے شہری نہ صرف پڑھے لکھے ہیں بلکہ دانشور بھی ہیں۔ یہ کتاب خریدنے اور پڑھنے کو ترجیح بھی دیتے ہیں۔

یہ بہت خوش آئند بات ہے کہ آج کل نہ صرف طلباء و طالبات بلکہ مختلف شعبہ جات سے تعلق رکھنے والے نصاب کے علاوہ بھی کتب بینی کی اہمیت کو سمجھتے ہیں۔ کتابیں ہمیں سمجھ بوجھ عطا کرتی ہیں۔ یہ بہترین ساتھی ہیں۔ جن سے ہمیں مختلف علاقوں اور دیس کے لوگوں کی سوچ، رویوں، ثقافت، تعلیم، علم و حکمت، روایات، فنونِ لطیفہ، تاریخ، جغرافیہ، صحت، نفسیات کے بارے میں معلوم ہوتا ہے بلکہ ہم ان کے تجربات اور مشاہدات سے بھی سیکھتے ہیں۔

کتابیں ہمیں کبھی بوریت کا احساس نہیں ہونے دیتیں یہ بہترین رفیق ہیں۔ جس سے ہماری تخلیقی صلاحتیں بھی اجاگر ہوتی ہیں۔ اچھا سوچنے، لکھنے اور بولنے کے لیے ہمیں کتابوں کی ہی ضرورت پڑتی ہے۔ کتابیں ہمیں اعتماد دینے کے ساتھ ساتھ ہماری شخصیت کو بھی نکھارتی ہیں۔ یہ کتابیں ہمارے تخیل کو جلا بخشتی ہیں۔ کتابوں کی اہمیت کو صرف کتابوں کے رسیا ہی سمجھ سکتے ہیں۔

کراچی کے کامیاب بک فئیر کے بعد اب لوگوں کو لاہور کے اگلے انٹرنیشنل بک فئیر کا انتظار ہے جو کہ ہر سال کی طرح فروری میں ایکسپو سینٹر میں منعقد کیا جائے گا۔ کچھ لوگوں کا خیال ہے کہ ایکسپو سینٹر عام شہری کی پہنچ سے دور ہے اور سواری کی عدم موجودگی کی وجہ سے وہاں تک پہنچنا ناگزیر ہو جاتا ہے جس کی وجہ سے ایک بڑی تعدار کتب بینبی کے عشق میں مبتلا ہونے کے باوجود پہنچ نہیں پاتی۔

کتابوں سے محبت کبھی ختم نہیں ہو سکتی۔ اس کا عشق ہماری رگوں میں خون بن کر دوڑتا ہے۔ وقت جتنا مرضی بدل جائے لیکن جو مزہ اور سکون کتاب کو ہاتھ میں پکڑ کر پڑھنے، اس پر نشان لگانے، خوبصورت بات یا خاص نکتہ کو اجاگر کرنے، یا صفحے کو موڑنے اور پھر وہیں سے شروع کرنے یا اپنی پسندیدہ لائن کو دوبارہ پڑھنے کا ہے وہ ڈیجیٹل کتابوں، آڈیو یا پی ڈی ایف کا نہیں ہے۔

ہمیں اپنی نوجوان نسل کو کتب بینی کی طرف مائل کرنا چاہئیے ان کو غیر نصابی مطالعے کی اہمیت سمجھانی چاہئیے تاکہ ان کے سوچنے اور سمجھنے کا انداز وسیع ہو سکے۔ کچھ بچوں کو اندازہ نہیں ہو پاتا کہ کہ وہ کونسی کتاب کا مطالعہ کریں۔ اس لیے ہم بڑوں کو اپنا کردار ادا کرنا چاہئیے اور ایسی کتابوں کا انتخاب کرنا چاہئیے جس میں سبق آموز کہانیاں ہوں، جو ان کی شخصیت کو نکھار سکیں، ان کے اعتماد کو مضبوط کر سکیں اور ان کی راہنمائی کر سکیں تاکہ وہ اپنی منزل کی طرف رواں دواں ہو سکیں۔

Check Also

Be Maqsad Viral Mawaad Aur Tameeri Rawaiyon Ki Zarurat

By Mujahid Khan Taseer