Sunday, 22 December 2024
  1.  Home
  2. Blog
  3. Asifa Ambreen Qazi
  4. Private Hospital Ke Doctors Ka Rawaiya

Private Hospital Ke Doctors Ka Rawaiya

پرائیویٹ ہسپتال کے ڈاکٹرز کا رویہ

پتا نہیں پرائیویٹ ہسپتالوں کے ڈاکٹروں نے یہ طریقہ کب سے اپنا لیا کہ ایک ہی وقت میں اپنے کمرے میں چار، چار مریضوں کو بلا لیتے ہیں، ایک مریض اپنا مسئلہ بیان کرتا ہے تو ڈاکٹر سے زیادہ باقی مریض اور اس کے لواحقین ہمہ تن گوش ہو کے سن رہے ہوتے ہیں۔ جب ہر کسی نے فیس الگ سے دی ہے تو الگ وقت دینے میں کیا مسئلہ ہے؟ ڈاکٹر سے مریض سب کچھ بیان کر سکتا ہے مگر جب اسے یہ احساس ہو کہ غیر متعلقہ لوگ بھی سن رہے ہیں تو وہ آدھا مسئلہ بھی بیان نہیں کر پاتا۔ حد یہ ہے کہ الٹراساؤنڈ کرتے وقت بھی کمرے میں دوسرے مریض موجود ہوتے ہیں۔

پچھلے ماہ اپنی بیٹی کو لے کر ایک ڈاکٹر کے پاس جانا ہوا، جب نمبر آیا تو تین چار لوگوں کو اکٹھے کال کیا گیا اور اندر جا کر دیکھا تو ڈاکٹر کے کمرے میں پہلے ہی تین لوگ کرسیوں پہ بیٹھے تھے۔ مجھے یہ دیکھ کر بڑا عجیب لگا۔ خیر نمبر لے چکی تھی اور فیس بھی ادا کر چکی تھی۔ خاموشی سے دیکھتی رہی۔ ہر مریض اپنی کہانی سناتا، ڈاکٹر نسخہ لکھتا اور پھر اگلے مریض کی باری آ جاتی۔

آج میری ایک دوست بتا رہی تھی کہ صحت کی خرابی کے بنا پر ڈاکٹر کے پاس جانا پڑا۔ دو ہزار فیس ادا کی باری آنے پر اکٹھے تین چار مریضوں کو اندر کال کیا گیا۔ وہ اندر چلی گئیں، وہاں پر پہلے سے دو مرد موجود تھے، دو اس کے ساتھ اندر داخل ہوئے اور وہ ان میں اکیلی خاتون تھی۔ جب ڈاکٹر صاحب نے اس کو چیک اپ کے لیے پاس بلایا اور مسئلہ پوچھا تو وہ بولی کہ میں اپنا مسئلہ اتنے سارے لوگوں کے سامنے نہیں بتاؤں گی، پہلے ان سب حضرات کو باہر بھیجیے۔ پہلے ڈاکٹر صاحب حیران ہوئے، پھر کہا کہ بی بی یہاں سب اپنا اپنا مسئلہ لے کر آئے ہیں، کیا حرج ہے۔

وہ بولی، پرائیویسی بھی کوئی چیز ہوتی ہے، میں اپنا مرض آپ سے ڈسکس کرنے آئی تھی آپ کے مریضوں سے نہیں۔ یہ کہہ کر اس نے ناصرف چیک اپ کرانے سے انکار کر دیا بلکہ فیس بھی واپس لے لی۔

کیا آپ کے شہروں میں بھی اس طرح کی پریکٹس جاری ہے؟ اگر ہے تو اس پر احتجاج کرنا آپ کا حق ہے۔ جو ڈاکٹرز مریض کی پرائیویسی کا خیال نہیں رکھتے ان کے پاس چیک اپ کے لیے جانے کی ضرورت نہیں بلکہ ایسے بد اخلاق ڈاکٹرز کا بائیکاٹ کیجیے اور ہسپتال انتظامیہ کو بتائیے۔

Check Also

Lahu Ka Raag

By Mojahid Mirza