Sunday, 22 December 2024
  1.  Home
  2. Blog
  3. Asifa Ambreen Qazi
  4. Kisi Ke Waaste Ye Bhi Mohtaram Hain

Kisi Ke Waaste Ye Bhi Mohtaram Hain

کسی کے واسطے یہ بھی حرم ہیں

سری لنکن مینجر کی سوختہ لاش کا واقعہ آج پھر ایک بار نظروں میں گھوم گیا، جب ایک ہجوم نے اس پر مقدس آیات کی بے حرمتی کا الزام لگایا۔ سڑک پر بے دردی سے تشدد کیا اور جسم کو آ گ لگا دی۔ پھر دنیا نے دیکھا کہ گھر بھیجے جانے والے تابوت میں سوائے مسافر کی راکھ کے اور کچھ نہ تھا۔

آج فجر کے وقت کسی شخص نے دیکھا کہ جڑانوالہ سینما چوک کے پاس قرآن پاک کے کچھ اوراق زمین پر بکھرے پڑے ہیں اور ان پر کچھ نازیبا جملے بھی درج ہیں۔ ساتھ ہی ایک کھلا ہوا رقعہ پڑا تھا جس میں مسلمانوں کو گالیاں دی گئی تھیں اور کچھ توہین آمیز جملے بھی درج تھے، حیرانی کی بات ہے کہ لکھنے والے نے اس میں اپنا نام اور رقعے کے اوپر اپنی تصویر بھی چسپاں کر رکھی تھی۔

عینی شاہد نے موقع پر قریبی مسجد کے امام قاری یونس کو بلایا۔ انہوں نے وہ اوراق اکٹھے کیے اور ملزم کی تلاش شروع کردی۔ اسی اثنا میں ایک شخص نے مسجد میں اعلان کرکے اہل محلہ کی غیرت ایمانی کو جگایا اور بھڑکایا۔ لوگوں نے آو دیکھا نہ تاو۔۔ ایک ہجوم تھا جو ڈنڈے، لاٹھیاں اٹھائے مسیحی بستی اور چرچ کی جانب بڑھا۔ آن ہی آن میں ایک مرکزی چرچ اور دو چھوٹے چرچوں میں توڑ پھوڑ کرکے آگ لگا دی گئی۔ کچھ غریب عیسائیوں کے گھر بھی جلائے گئے۔ یہیں پہ بس نہیں کی، مسیحی قبرستان پر چڑھ دوڑے، قبرستان کی چار دیواری گرائی اور اور قبروں کو پاوں سے روندا۔

یہ منظر بالکل سری لنکن مینجر کو جلائے جانے جیسا تھا۔۔ نعرے تھے، جوش تھا، اور تماش بین ویڈیوز بنا رہے تھے۔ جب تک پولیس آئی چرچ کو آگ لگا کر توڑ پھوڑ مکمل کر لی گئی تھی۔

یہ تو تھا سارا واقعہ، سوال یہ ہے کہ جس شخص نے یہ حرکت کی اور فرار ہوگیا اسے پکڑنا چاہیے تھا کہ بےگناہ عیسائیوں کے گھروں پر حملہ آور ہوکر ان کی عبادت گاہ ںھی جلا دی جاتی؟ توہین مذہب کا جواب توہین مذہب سے دیا گیا اور سکور 1,1 سے برابر ہوگیا۔

نہیں معلوم بےحرمتی کرنے والا نفسیاتی مریض تھا یا مذہبی جنونی، یہ کوئی سازش تھی کہ شرارت، یا ایک پلانٹڈ گیم تھی۔ لیکن اس سے من چاہے نتائج حاصل کر لیے گئے۔ پوری دنیا کو دکھایا کہ مسلمان کس قدر متشدد قوم ہیں۔ ایک ہجوم تھا جو مشتعل تھا۔ کسی ایک نے بھی معاملے کی گہرائی کو سمجھنے کی کوشش نہ کی، بلکہ مسیحی عبادت گاہ کو آگ لگا کر مسمار کرنا کار ثواب جانا۔

مجھے نہیں معلوم کہ اب پولیس کیا کاروائی کرتی ہے لیکن اسلام میں کہیں بھی غیر مسلموں کی عبادت گاہوں کو جلانے کا حکم نہیں۔ ہمیں اس حرکت کی بھرپور مذمت کرنی چاہیے۔ یہ وحشیانہ پن دکھانے والے جنونی تو ہو سکتے ہیں۔۔ مسلمان نہیں۔ کیونکہ ایسے واقعات کی آڑ میں ہمیشہ مذہب اسلام کو رگیدا جاتا ہے، جبکہ قصور اس کے ماننے والوں کا ہوتا ہے۔ بخدا دین اسلام کی یہ تعلیم نہیں۔ اور نہ ہی کم علم، جاہل اور جنونی جتھا اسلام کی نمائندگی کرسکتا ہے۔

میری علماء کرام سے گزارش ہے کہ منبر سے آواز اٹھائی جائے۔ اسلام کو بطور امن کا دین پیش کیا جائے۔ متشدد گروہ کی ذہن سازی کرنے اور اکسانے کی بجائے ان کو بتایا جائے کہ توہین رسالت کے قانون کے تقاضے کیا ہیں۔ جس شخص نے توہین کا ارتکاب کیا ہے اسے پکڑ کر پولیس کے حوالے کیا جائے نہ کہ ایک جتھا بنا کر بے گناہ لوگوں پر حملہ کردیا جائے اور چرچ مسمار کیے جائیں۔

اپنی گھٹن، فرسٹریشن اور جہالت کو جنونیت کی شکل میں باہر نکالنا اور کسی کی عبادت گاہوں کو جلانا دین کی خدمت نہیں ہے۔

یاد رکھیے۔۔

کسی کے واسطے یہ بھی حرم ہیں

عبادت گاہیں سب کی محترم ہیں

Check Also

Sarak, Sawari Aur Be Dharak Yaari (2)

By Maaz Bin Mahmood