Sunday, 22 December 2024
  1.  Home
  2. Blog
  3. Asifa Ambreen Qazi
  4. Daman Nichor Dain To Farishte Wuzu Karen

Daman Nichor Dain To Farishte Wuzu Karen

دامن نچوڑیں تو فرشتے وضو کریں

وہ بچپن کی کشتی اور ساون کا پانی تو سب کو یاد رہتا ہے لیکن بچپن کا رمضان بھی کسی کو نہیں بھولتا ہے۔ آج کل کے بچے تو بہت ہوشیار ہیں، ہمارا بچپن بھولپن میں ہی گزر گیا۔ روزے فرض نہیں تھے لیکن چڑی روزوں کا بھی ایک اپنا مقام تھا۔ دو چڑی روزے ملا کر ایک بنتا تھا۔

جس رات تاکید کی جاتی تھی ہمیں سحری میں جگانا کوئی نہ بھولے، اسی رات ہی سب بھول جاتے تھے تب زمین پر لیٹ کر ناگن ڈانس کے ساتھ آٹھ پہرے روزے کا بھی اہتمام ہوتا تھا۔ مائیں روزہ تڑوانے کے لیے لقمے لے کر پیچھے پیچھے ہوتیں۔

روزہ رکھ کر چھوٹی موٹی کرپشن عام تھی۔ تب کے روزے اتفاق سریے سے زیادہ مضبوط ہوتے تھے۔ پانی، ٹافی اور فریج میں بچی ہوئی افطاری سے بھلا کہاں ٹوٹتے تھے۔ ایک سہیلی نے کان میں بتایا تھا کہ روزہ صرف آگ پر پکی ہوئی چیزوں سے ٹوٹتا ہے۔ تب غیر پکی ہوئی چیزوں کی موجودگی سے روزہ محسوس بھی نہ ہوتا، اور سحری میں پکائے گئے پراٹھے سے تو بالکل نہیں ٹوٹتا، جب مرضی کھا لو۔۔

لڑکے بالے روزہ رکھ کر ٹیوب ویل پر نہانے جاتے تو خوب سیراب ہو کر پانی پیتے اور خود کو یہی تسلی دیتے کہ نہاتے نہاتے منہ میں پانی چلا گیا جبکہ پانی اتنا سیانا ہوتا کہ عام دنوں میں کبھی بھی منہ میں نہ جاتا۔۔

وضو کا بھی "دامن نچوڑیں تو فرشتے وضو کریں" والا حال تھا، بچے چھوٹی کاروائی خاطر میں نہ لاکر ایک وضو سے ساری نمازیں بھگتانے کا ٹیلنٹ رکھتے تھے۔ ہم خود یہ سوچ کر مصلے پہ کھڑے ہوجاتے کہ "اتنے سے" کہاں ٹوٹتا ہے۔

افطاری میں لوازمات بھی کم ہوتے تھے۔ جس دن شربت میں میٹھا پورا اور پکوڑوں میں نمک مناسب ہوتا تھا اس دن سب کو شک ہو جاتا تھا کہ ہمارا روزہ نہیں ہے۔ لیکن ہمیں اپنے روزے کی مضبوطی پر ہمیشہ یقین رہا۔ طاق عدد میں روزے رکھنا اچھا شگون نہ تھا۔ اگر 9 روزے رکھے ہیں تو آٹھ تو جوڑی جوڑی میں ہوجاتے تھے، نواں روزہ اکیلا روتا تھا اور اس کا رونا دھونا اور اکیلا پن دور کرنے کے لیے ایک اور روزہ رکھنا بھی ضروری تھا۔

روزوں کے ثواب سے زیادہ ان کی تعداد پر نظر رہتی تھی۔ اگر بہن بھائی میں سے کسی کے روزے زیادہ ہوجاتے تو دل پر برچھیاں چل جاتیں۔ پھر امی حضور کے کہنے پر سحری سے ظہر تک اور ظہر سے افطاری تک دو روزے پورے کر لیے جاتے۔

دوسروں سے روزہ اتنے آسانی سے چھین لیے جاتے جیسے کراچی میں موبائل۔۔ پوچھا جاتا تم نے کتنے روزے رکھے، جب اگلا تعداد بتاتا تو کہتے، قبلتم، میں نے تمہارے روزے لے لیے! کوئی پوچھتا آپ نے کتنے رکھے؟ اطمینان سے بتایا جاتا دو پہلے اور دو آخری؟

تو باقی روزوں کا کیا ہوا؟

وہ تو خود ہی ان کے بیچ میں آگئے۔۔ 30 پورے ہوگئے۔

روزے کا لین دین بھی عام تھا۔ بہن بھائیوں اور سہیلیوں سے منت ترلے سے روزے لے کر تعداد پوری کی جاتی تھی۔ کچھ اتنی دریا دلی دکھاتے کہ اگر خود تین بھی رکھے ہوتے تو مجھے چار روزے مِلک کردیتے۔ یوں الحمدللہ خاندان میں بتاتے ہوئے فخر ہوتا کہ پورے روزے رکھے ہیں۔ کسی سہیلی کا ایمان اور ہمارا پیٹ زیادہ کمزور ہوتا تو وہ دو روپے کا ایک روزہ بیچ بھی دیتی تھی۔ پورے پاکستان میں تیس روزے بنتے، ہمارے ایک ماہ میں کل ملا کے بتیس یا چھتیس بھی نکل آتے تھے۔

Check Also

Janoobi Korea , Muashi Taraqqi Aur Corruption Ka Taal Mil

By Khalid Mehmood Rasool