Apne Bachon Ko Tarjeeh Dein
اپنے بچوں کو ترجیح دیں
سکول پڑھنے والے بچوں کے ساتھ والدین کا ایک عمومی رویہ آپ کو بتاتی ہوں شاید یہ پڑھ کر کچھ والدین واقعی بچوں کی صحت کو ایک دن کی غیر حاضری پر ترجیح دینے لگیں۔ میری کلاس کا سٹوڈنٹ جس کی عمر سولہ سال ہوگی، نے طبیعت کی خرابی کی شکایت کی اور اس کے چہرے سے بھی لگ رہا تھا وہ آج ٹھیک نہیں ہے، وہ بار بار باتھ روم جا رہا تھا۔ چہرہ پیلا پڑ رہا تھا، وہ جیسے ہی واپس آیا نڈھال تھا، پوچھنے پر اس نے بتایا بار بار وومٹنگ (قے) آ رہی ہے۔ میں نے کلاس ٹیچر کو بتایا، انہوں نے فوری گھر کال کی کہ بچے کی طبیعت خراب ہے، آ کر لے جائیے اسے قے آرہی ہے بار بار۔۔ والد صاحب نے کہا، میں نہیں مانتا اس کی طبیعت خراب ہے، بہانے کر رہا ہوگا، کیا آپ نے اس کی قے دیکھی ہے؟ اس بےتکے سوال اور تفتیش پر اب ایک ٹیچر کیا
جواب دیتا، بڑی ہی اذیت میں اس بچے نے چند گھنٹے گزارے۔
ایک بچہ چکرا کر اسمبلی میں گر پڑا، رنگ لٹھے کی مانند سفید ہے، گھر فون کیا، جواب آیا کئی دن سے ناشتا نہیں کر رہا، کوئی بسکٹ وغیرہ یا جوس دے دیں ٹھیک ہو جائے گا۔ کسی بچے کو بخار یا سردرد ہے، پینا ڈول دینے کا مشورہ دیا جاتا ہے، جبکہ سکول میں کسی بھی قسم کی دوائی دینا سخت ممنوع ہے۔
یہ صرف ایک بچے کے ساتھ نہیں ہوتا، اکثر ایسا دیکھا ہے کہ بچے کو بیمار دیکھ کر ہم گھبرا جاتے ہیں اور فوراً گھر والوں سے رابطہ کرتے ہیں مگر وہ بڑے اطمینان کے ساتھ تین چار گھنٹوں بعد بچے کو لینے آتے ہیں ۔ بعض والدین کے تو فون نمبر ہی بند ہوتے ہیں ۔ خدا کے بندو بچوں کو سکول بھیج کر فون تو آن رکھا کریں، یا نیا نمبر لے لیا ہے تو فوراََ سکول کے ریکارڈ میں درج کروائیں۔
بعض اوقات تو بیمار بچے سکول آ جاتے ہیں، والدین کو ایک دن کی چھٹی منظور نہیں مگر بخار اور درد میں تڑپتا بچہ سکول بھیجنا منظور ہے۔
ایک پرائمری کلاس کا بچہ روز سردرد کی شکایت کرتا رہا، والدین سے کہا تو جواب آیا گھر میں تو اسے کبھی درد نہیں ہوا، سکول جا کر ہی کیوں ہوتا ہے، آپ اس کی ٹینشن نہ لیں، پڑھائیں۔ تین چار ماہ بعد پتا چلا کہ اس کی نظر انتہائی کمزور ہوچکی ہے اور وائٹ بورڈ پر گڈ مڈ الفاظ کو سمجھنے کی کوشش میں اسے سر درد شروع ہو جاتا تھا مگر والدین بہانہ سمجھتے رہے۔
خدارا اس بات کو سمجھیے کہ صحت سے پڑھائی ضروری نہیں، اگر بچہ آپ کو اپنی بیماری کا بتا رہا ہے تو یقین کر لیجیے، سکول سے فون آیا ہے تو سارے کام چھوڑ کر سکول پہنچ جائیے۔ اب وہ دور گیا کہ بچے سکول نہ جانے کے بہانے بنائیں، روزمرہ کی خوراک ایسی ہوگئی ہے کہ پیٹ درد، قے، سر درد، بخار، کمزوری، ڈپریشن اکثر بچوں کو اپنی لپیٹ میں لے لیتا ہے۔
میں نے کئی ایسے کیس اپنی آنکھوں سے دیکھے ہیں، والدین نے سکول آنے والے بچوں کے درد کو معمولی سمجھا اور وہ غیر معمولی نکلے، کسی کا اپنڈکس پھٹ گیا تو کسی کا السر اور نوبت ایمرجنسی ایڈمیشن تک جا پہنچی۔ یہ ایک مہنگے پرائیویٹ سکول میں پڑھنے والے بچوں کے والدین کا رویہ ہے، سرکاری سکولز کے کیا حالات ہیں، میرے علم میں نہیں۔ مگر والدین سے پھر کہوں گی بچے کی پڑھائی کو سر پر اتنا سوار مت کریں کہ خدا نخواستہ آپ بچے سے ہی ہاتھ دھو بیٹھیں۔ ان پر اعتماد کریں، ان کی بات غور سے سنیں، ان کی صحت کو پہلی ترجیح بنائیں۔ سکول سے آنے والی کال انتہائی ایمرجنسی کال ہوتی ہے، اس کا بروقت رسپانس دیں۔

