Shekhi Khori Ka Rujhan
شیخی خوری کا رجحان

امسال عیدالفطر کے موقع پر چند پرانے دوستوں کو ہماری یاد ستائی اور وہ ہمارے گھر آن موجود ہوئے۔ وہ کشمیر جنت نظیر کی سیر کے ارادے سے تشریف لائے تھے اور ناچیز کو اپنے ساتھ لے جانے کے خواہاں تھے۔ قدرے غور و خوص اور شریکِ حیات کو اعتماد میں لینے کے بعد اسی رات ہم وادئی کشمیر کی طرف رواں دواں ہوئے۔ جن صاحب کی گاڑی میں ہم لوگ محو سفر تھے، وہ پورے راستے شیخیاں بھگارتے رہے۔ انھوں نے ارشاد فرمایا کہ پہاڑی علاقوں میں ان جیسا گاڑی بھگانے والا کوئی پیدا نہیں ہوا۔
ابھی یہ جملہ مکمل بھی نہ ہو پایا تھا کہ اچانک گاڑی کا ایک پہیا گڑھے میں جا گرا۔ انکی اس شیخی خوری کی عادت نے ہمیں اتنا پریشان کیا کہ ہم آخر کار گاڑی میں موجود اپنے ایک اور ساتھی کو یہ کہنے پر مجبور ہو گئے کہ رواں ہزاریے کے عظیم الشان ڈرائیور کا تمغہ بمعہ خطاب ہمارے دوست کو دے دیا جائے۔ اس پر دوسرے موصوف کا اعتراض تھا کہ رواں ہزاریے میں تو شوماکر جیسے نابغہ روزگار ڈرائیور حضرات بھی آئے ہیں۔ ہماری خصوصی درخواست ایک دہائی پر محیط ایک تمغہ ہمارے فاضل دوست کو دینے کا وعدہ کیا گیا۔
اس واقعے میں ایک اور معاشرتی خرابی کی طرف اشارہ پنہاں تھا۔ شیخی بھگارنے کی قبیح عادت ہمارے معاشرے کے ہر طبقہ میں بدرجہ اتم پائی جاتی ہے، جبکہ حقیقت حال خاصی گھمبیر ہے۔ پاکستان کے کسی سائنسدان نے انفرادی طور پر نو بیل پرائز کبھی حاصل نہیں کیا۔ دنیا کی درجہ بندی میں وطن عزیز کا نمبر 160 ہے جبکہ دنیا میں 208 کل ملک پائے جاتے ہیں۔ تعمیراتی کاموں میں آج بھی اٹھارویں صدی میں ایجاد ہونے والے خام مال اور طریق استعمال ہو رہے ہیں۔ آج تک کوئلہ سے بنی اینٹ استعمال ہورہی ہے جبکہ دنیا کب کی راکھ سے بنی اینٹوں پر منتقل ہو چکی۔ آج بھی پاکستان میں کلی طور پر بنی کوئی گاڑی نہیں ہے، صرف گاڑیوں کے اسملنگ یونٹ لگا کر اسے لوکل گاڑی کا نام دیا جاتا ہے۔ آئی فون یا سام سنگ کے مقابلے کا کوئی موبائل فون پاکستان آج تک تیار نہیں کیا جاسکا۔
آج، جب دنیا پٹرول اور ڈیزل کو چھوڑ کر سازگار توانائی پر چلنے والی گاڑیاں بنا رہی ہے، ہم اپنے موٹر سائیکل سواروں کو زبردستی بائیک لین میں چلنے کی تربیت دے رہے ہیں جو قطعاً کارگر ثابت نہیں ہورہی۔ قومی شاہرات کے ادارے کو "لائن اور لین کے فرق کو سمجھیں" جیسے سائن بورڈز قومی شاہراہوں پر ایستادہ کرنے پڑ رہے ہیں۔ وطن عزیز میں ہنر مند افراد کی شدید کمی ہے مگر تمام لوگوں کی گفتگو سن کر ایسا معلوم ہوتا ہے کہ پاکستان جیسا اعلیٰ و ارفع کام دنیا بھر میں کہیں نہیں ہوتا، جبکہ حقیقت حال اس کے برعکس ہے۔
مستثنیات کو چھوڑ کر، کسی بھی میدان عمل میں کوئی نمایاں کارکردگی پیش کرنے والے پاکستانی عرصہ دراز سے کبھی نظر نہ آئے۔ تھوک کے حساب سے یونیورسٹیاں کھلی ہیں جو ہزاروں تحقیقاتی مقالے ہر سال شائع کر رہی ہیں جن کا حقیقت کی دنیا سے دور دور تک کوئی واسطہ نہیں۔ اس پر مستزاد یہ دروغ گوئی کہ پاکستان میں ٹیلنٹ بہت ہے۔ قارئین کرام سے گزارش ہے کہ اگر یہ بات سچ ہے تو پاکستان کی 78 سالہ تاریخ میں ٹیلنٹ کا کوئی نمونہ دکھائیں۔
ضرورت اس امر کی ہے کہ فوری طور پر اس ٹیلنٹ کے سراب سے نکلا جائے اور ایسے تعلیمی اور تربیتی ادارے قائم کئے جائیں جو ہم لوگوں کو ٹیلنٹ سکھائیں اور ملک و قوم کی گاڑی کا رخ سیدھا کریں ورنہ 160 نمبر سے 208 پر آنے میں کچھ زیادہ وقت نہیں لگے گا۔

