Public Transport Ka Nizam
پبلک ٹرانسپورٹ کا نظام
90 کی دہائی میں ہمارے وطن عزیز میں پبلک ٹرانسپورٹ کا نظام انتہائی ناقص تھا۔ سرکاری بسیں مناسب مرمت نہ ہونے کے باعث اڈوں پر کھڑی ہو گئی تھیں اور عوام پرائیوٹ ٹرانسپورٹرز کے رحم و کرم پر تھے۔ نئے ہزاریے کی شروعات میں اس مسئلہ کی طرف توجہ دی گئی جس کے نتیجہ میں سرکاری اور پرائیوٹ بسیں چلائی گئیں۔ آج بہت سے شہروں میں میٹرو بس سروس رائج ہے، لیکن اس نظام سے بھرپور استفادہ نہیں کیا جا رہا۔ اس سلسلے میں کچھ تجاویز پیش کی جا رہی ہیں۔
راولپنڈی، اسلام آباد جڑواں شہر ہیں اور وقت کے ساتھ عملاً ایک شہر کا روپ دھار چکے ہیں۔ موجودہ پبلک ٹرانسپورٹ کا نظام آبادی کے تناسب سے ناکافی ہے، جس کی وجہ سے اس کا استعمال انتہائی کم ہے۔ اس کی بنیادی وجہ عوام میں پبلک ٹرانسپورٹ کے استعمال کا رواج نہ ہونا ہے۔ اس کو فروغ دینے کے لیے اسکول کی سطح پر اس بات کو نصاب کا حصہ بنایا جائے اور بچوں کی تربیت میں پبلک ٹرانسپورٹ کے استعمال کی افادیت اجاگر کی جائے۔
دوسری اہم ترین وجہ مین سٹاپس سے شہر کے اندرونی علاقوں تک کسی شٹل سروس کا نہ ہونا ہے۔ اس سلسلہ میں گزارش ہے کہ ایک مربوط نظام کے تحت، ویگن یا چنگ چی رکشوں کا نظام رائج کیا جائے جو لوگوں کو میٹرو سے ان کے گھر تک پہنچائے۔ پبلک ٹرانسپورٹ نظام کا قلیل مدتی حل یہ ہے کہ موجودہ ریلوے لائن پر ہر آدھے گھنٹے بعد لوکل ٹرین چلائی جائے جس کے سٹاپس مانکیالہ، سہالہ، لوئی بھیر، کورنگ، شاہ خالد، فضل ٹاؤن، چکلالہ، مریڑ چوک، راولپنڈی، گولڑہ شریف اور مارگلہ پر ہوں۔ ان تمام سٹیشنوں پر چنگ چی رکشہ سروس متعارف کروائی جائے۔
طویل مدتی حل یہ ہے کہ راولپنڈی رنگ روڈ کے ساتھ ساتھ راولپنڈی اسلام آباد سرکلر ریلوے لائن بچھائی جائے جس کے چیدہ چیدہ سٹیشن روات، ٹھلیاں، سنگ جانی اور بھارہ کہو ہوں، اور ان کو شہر کے اندرونی علاقوں سے بذریعہ ریل ملایا جائے۔ اس کی وجہ سے گاڑیوں اور موٹر سائیکل کے استعمال میں نمایاں کمی آئے گی جس سے ماحولیاتی آلودگی پر قابو پانے میں بھی مدد ملے گی۔ اربابِ اقتدار سے اس سلسلہ میں کام کرنے کی اپیل ہے۔