Pakistan Ki Taraqi Mein Khawateen Ka Kirdar
پاکستان کی ترقی میں خواتین کا کردار
خواتین پاکستان کی آبادی کا 51 فیصد ہیں۔ ہندوپاک کی تاریخ کا مطالعہ کرنے سے واضح ہوتا ہے کہ سرسید احمد خان وہ پہلے رہنما تھے۔ جنہوں نے خواتین کو تعلیم کے ذریعے قومی دھارے میں شامل ہونے پر ابھارا۔ تحریک پاکستان کبھی بھی خواتین کے کردار کے بغیر کامیاب نہیں ہو سکتی تھی۔ مادر ملت محترمہ فاطمہ جناح کی قیادت میں برصغیر کی خواتین پاکستان کے حصول کی تحریک میں پیش پیش رہیں۔
ان میں ہراول دستے کا کردار ادا کرنے والی خواتین میں بیگم وقار النسا نون، بیگم رعنا لیاقت علی خان اور شائستہ اکرام اللہ سرٍ فہرست ہیں۔ قائد اعظم رح تحریک پاکستان میں خواتین کے کردار کی اہمیت سے بخوبی واقف تھے اور خواتین کو بڑھ چڑھ کر حصہ لینے کی ترغیب دلاتے رہے۔ قیام پاکستان کے بعد بھی خواتین ملک کی ترقی میں پیش پیش رہیں۔
مگر اس کے بعد وطن عزیز پر مفاد پرست ٹولے کا قبضہ ہوگیا اور خواتین کو تعلیم سے دور کر دیا گیا۔ اگر فوجی ڈکٹیٹر جنرل ایوب خان انتخابات میں دھاندلی نہ کرواتا، تو محترمہ فاطمہ جناح سب سے بڑی اسلامی مملکت کی پہلی خاتون صدر بن جاتیں۔ اس کے بعد ایک منظم سازش کے تحت خواتین کے تعلیمی بجٹ میں کمی کردی گئ اور یوں اس طبقے کو نا خواندہ رکھنے کے عمل کی بنا رکھ دی گئی۔
ذوالفقار علی بھٹو کی حکومت میں خواتین کی ترقی کے لئے گوناگوں اقدامات کئے گئے۔ سول سروس میں خواتین کا کوٹہ مقرر کرنا، قومی اسمبلی میں 10 فیصد اور صوبائی اسمبلیوں میں 5 فیصد خواتین کی مخصوص نشستوں کا اجراء اور 1973 کے آئین میں صنفی امتیاز کا خاتمہ اس دور کے کارہائے نمایاں ہیں، لیکن ملک دولخت ہونے اور سیاسی عدم استحکام کے باعث خواتین کی تعلیم و ترقی کے منصوبے کتابوں کی زینت بن کر رہ گئے۔
5 جولائی 1977 کو ایک اور فوجی ڈکٹیٹر جنرل ضیاء الحق نے ذوالفقار علی بھٹو کی منتخب حکومت کا تختہ الٹ دیا، اور اسلامائزیشن کے نام پر خواتین کو نام نہاد پردے کی پابندیوں میں دھکیل دیا۔ حدود آرڈیننس کے نام سے قانون کا اجراء کیا، جس کے باعث عصمت دری کا شکار خواتین کا اس ظلم کے خلاف آواز اٹھانے کا حق سلب کر لیا گیا۔ اس کو ثابت کرنے کے لئے خواتین کے لئے چار گواہ لانا لازم قرار دے دیا گیا۔
اس امر میں ناکامی کی صورت میں متاثرہ عورت پر قذف یعنی جھوٹے الزام کی دفعہ لگا کر اسے ہی پابند سلاسل کر دیا جاتا۔ اس ظلم عظیم نے عزت کے لٹیروں کو مادر پدر آزاد کردیا، اور خواتین کی زندگی مزید مشکل کر دی گئی۔ ٹی وی پر نیوز کاسٹر سے لے کر ڈرامہ آرٹسٹ تک سب کے لئے دوپٹہ لینا لازم قرار دے دیا گیا۔ اس کام میں پیش پیش مفتی تقی عثمانی صاحب مدظلہ تھے، جو آج بھی مفتی اعظم کے عہدے پر فائز ہیں۔
اسلام کی شکل بگاڑنے میں ان سے زیادہ کوئی قصور وار نہیں۔ اس صورتِ حال میں 1981 میں کراچی میں خواتین نے اپنے حق کے لئے احتجاجی مظاہروں کا سلسلہ شروع کیا، جس سے وقتی طور پر یہ طوفان رک گیا، مگر اس قانون کے قبیح اثرات اج تک خواتین کے لئے ایک آ سیب کا روپ دھارے ہوئے ہیں۔ یہ امر کلی طور پر واضح ہے کہ ان غلط قوانین نے خواتین کی زندگیوں پر منفی اثرات مرتب کیے۔
پاکستان کی جیلیں زیادتی سے متاثرہ خواتین سے بھر دی گئیں، کیونکہ وہ چار گواہ لانے سے قاصر تھی۔ 1983 میں صفیہ بی بی نامی ایک گھریلو ملازمہ کو اس کے مالک نے زیادتی کا نشانہ بنایا۔ عدالت نے الٹا اس لڑکی کو 15 کوڑے، 5 سال قید اور ایک ہزار روپے جرمانہ کی سزا سنائی۔ اس ظلم عظیم پر فیڈرل شریعت کورٹ کو ازخود نوٹس لینا پڑا اور انھوں نے اس فیصلے کو کالعدم قرار دے کر متاثرہ خاتون کی بریت کا حکم جاری کیا۔
اس دور کاسب سے زیادہ منفی اثر فنون لطیفہ کی صنعت پر پڑا، اور وہ معاشرہ جہاں میڈم نور جہاں، منی بیگم، ملکہ پکھراج اور نیرہ نور جیسی خواتین کے فن کی دھوم تھی، جنرل ضیاء الحق کے سیاہ دور میں ایک بھی ٹیلنٹڈ خاتون کو ترقی نہیں کرنے دیا گیا۔ 1988 میں جنرل ضیاء الحق کے عبرتناک انجام کے بعد محترمہ بینظیر بھٹو پاکستان کی پہلی خاتون وزیراعظم بن گئیں۔
یہ مملکت خداداد کی لئے باد صبا تابت ہوئیں۔ انھوں نے اپنے دور حکومت میں خواتین کی ترقی کیلئے بہت سے اقدامات کئے، جن میں فرسٹ ویمن بینک کا قیام اہم ترین ہے۔ اس کے علاوہ انہوں نے حدود آرڈیننس میں ترمیم کا عندیہ دیا، مگر اسمبلی میں اکثریت نہ ہونے کے باعث کئی اقدامات کو عملی جامہ پہنانا ممکن نہ ہوسکا۔ ان کے بعد میاں نواز شریف دو مرتبہ نامکمل ادوار کے وزیراعظم بنے۔
ان کے دور میں پہلی خواتین یونیورسٹی، فاطمہ جناح یونیورسٹی کا قیام عمل میں لایا گیا۔ لیکن پہلے برسوں میں اسے بھی فنڈز سے محروم رکھا گیا۔ ان کی منتخب حکومت کا تختہ بھی ایک فوجی ڈکٹیٹر جنرل پرویز مشرف نے شب خون مار کر الٹ دیا۔ جنرل مشرف کی نام نہاد اسمبلی نے بہر حال 2006 میں خواتین کی حفاظت کا بل پاس کیا، مگر وہ بھی صرف باتوں تک ہی محدود رہا۔
اس دور میں ہونے والے مختاراں مائی زیادتی کیس نے عالمی شہرت حاصل کی اور بیرونی ممالک کے دباؤ پر مختاراں مائی کو رہا کرنا پڑا۔ محترمہ بینظیر بھٹو کے بہیمانہ قتل کے بعد ان کے شوہر اصف علی زرداری حکمران بنے، جنھوں نے پاکستان کی تاریخ میں پہلی بار ڈاکٹر فہمیدہ مرزا کو قومی اسمبلی کی سپیکر کے عہدے پر تعینات کیا۔ اسی دور میں پاکستان کی پہلی وزیر خارجہ حنا ربانی کھر اور سندھ اسمبلی کی ڈپٹی سپیکر شہلا رضا کی تعیناتی ہوئی۔
اس وقت میں بہت سی خواتین کو وزارت اور مشاورت کے عہدے دئے گئے، جن میں شیری رحمان، فوزیہ وہاب، فردوس عاشق اعوان اور شازیہ مری قابلِ ذکر ہیں۔ 2012 میں، کاروکاری، وٹا سٹا، ونی اور قرآن سے شادی جیسی فرسودہ رسومات کو قابلِ تعزیر قرار دیا گیا، جس کی وجہ سے بہت سی خواتین ظلم کے چنگل سے نکلیں۔ 2016 میں بالآخر پاکستان کی قومی اسمبلی نے ایک بل پاس کیا۔
جس کے نتیجے میں زیادتی کے کیسز میں DNA ٹیسٹ کو لازمی قرار دے دیا گیا۔ آج کے اس دور جدید میں، ضرورت اس امر کی ہے کہ خواتین کے حقوق سے وابستہ تمام قوانین پر ان کی اصلی شکل میں عمل کروایا جائے۔ سرکاری اور پرائیویٹ اداروں میں خواتین کی مخصوص نشستوں میں اضافہ کیا جائے اور ان تمام عناصر کی بیخ کنی کی جائے، جو کسی بھی طرح سے خواتین کی ترقی میں رکاوٹ کا باعث ہیں۔
مزید برآں خواتین کے حقوق کے تحفظ کے لئے قائم کردہ ٹاسک فورس کو مزید فعال بنایا جائے، تاکہ ملک کی خواتین تعمیر وترقی میں اپنا کردار احسن طریقے سے نبھا سکیں۔