Pakistan Aur Maeeshat Ka Shaitani Chakkar
پاکستان اور معیشت کا شیطانی چکر

پاکستان کی معیشت گزشتہ کئی دہائیوں سے ایک ایسے شیطانی چکر میں پھنسی ہوئی ہے، جس کا کوئی واضح اختتام نظر نہیں آتا۔ ہر چند سال بعد آئی ایم ایف کے دروازے پر دستک، قرضوں کی نئی قسط، سخت شرائط اور ان شرائط کے نتیجے میں مہنگائی، بیروزگاری، عوامی بے چینی اور پھر وہی پرانا دائرہ: نیا قرض، عارضی ریلیف اور مستقل معاشی غلامی۔ یہ سب کچھ کیوں ہو رہا ہے؟ اور اس سے نکلنے کا راستہ کیا ہے؟ اس پر غور کرنا اب محض ایک تجزیہ نہیں، ایک قومی فریضہ بن چکا ہے۔
ہماری بنیادی معاشی پالیسی ہمیشہ سے "قرض لو، بجٹ چلاؤ" کے اصول پر استوار رہی ہے۔ ان قرضوں کو پیداواری منصوبوں میں لگانے کے بجائے ہم نے ان سے سبسڈی، تنخواہیں اور دیگر غیر پیداواری اخراجات پورے کیے۔ اس کا نتیجہ یہ ہوا کہ نہ معیشت کا سٹرکچر مضبوط ہوا، نہ برآمدات میں اضافہ ہوا، نہ معیاری روزگار پیدا ہوا۔ جب قرضوں سے معیشت نہیں چلی، تو عوام پر بوجھ ڈالنے کا فارمولا اپنایا گیا: مہنگائی، ٹیکس کا دائرہ تنخواہ دار طبقے تک محدود، جبکہ اصل دولت رکھنے والے طبقے، جاگیردار، سیاسی اشرافیہ اور طاقتور ادارے، ہمیشہ ٹیکس نیٹ سے باہر رہے۔
اس "ایلیٹ کیپچر" نے پاکستان کی معیشت کو اندر سے کھوکھلا کر دیا ہے۔ ملکی وسائل پر ایک چھوٹے سے طبقے کا قبضہ ہے، جو پالیسیز اپنے مفاد میں بناتا ہے۔ جب تک اس نظام کو چیلنج نہیں کیا جاتا، حقیقی تبدیلی کا تصور محض سراب رہے گا۔ ہمیں ایک ایسا ٹیکس نظام درکار ہے جو منصفانہ ہو، جس میں ہر شہری اپنی استعداد کے مطابق حصہ ڈالے۔ صرف تنخواہ دار طبقے پر بوجھ ڈال کر ہم نہ ترقی کر سکتے ہیں، نہ خود مختار بن سکتے ہیں۔
معاشی خود انحصاری کا راستہ صرف برآمدات میں اضافے سے جڑا ہے۔ لیکن بدقسمتی سے ہماری برآمدات کا دائرہ محدود اور غیر متنوع ہے۔ ہمیں انفارمیشن ٹیکنالوجی، زرعی مصنوعات، ہینڈ کرافٹس اور سروسز سیکٹر کو عالمی معیار کے مطابق ڈھالنا ہوگا۔ حکومت کو ایسے اقدامات کرنے ہوں گے جن سے نوجوانوں کو ہنر ملے، چھوٹے کاروبار کو تحفظ ملے اور ملک میں سرمایہ کاری کا ماحول بہتر ہو۔
ایک اور بنیادی ضرورت سیاسی استحکام ہے۔ معاشی پالیسیاں پھل تب ہی دیتی ہیں جب انہیں ایک مدت تک تسلسل سے نافذ کیا جائے۔ مگر بدقسمتی سے ہمارے ہاں ہر دو سے تین سال بعد حکومتیں تبدیل ہوتی ہیں، پالیسیز بدلتی ہیں، منصوبے بند ہوتے ہیں اور پھر نئے سرے سے نظام ترتیب دیا جاتا ہے۔ اگر ہم واقعی معاشی نجات چاہتے ہیں تو ہمیں سیاسی جماعتوں کو معاشی پالیسی پر قومی اتفاق رائے کی طرف لانا ہوگا۔ معاشی فیصلے ذاتی، جماعتی یا وقتی سیاسی مفاد کے بجائے طویل المدتی قومی مفاد میں ہونے چاہییں۔
ماحولیاتی تبدیلی بھی اب صرف ایک ماحولیاتی مسئلہ نہیں رہا، بلکہ معاشی مسئلہ بن چکا ہے۔ پاکستان جیسے ملک کے لیے یہ ضروری ہے کہ وہ آئی ایم ایف کے ریزیلینس اینڈ سسٹین ایبلٹی پروگرام (RSF) کے ذریعے موصول ہونے والی مالی معاونت کو ماحول دوست زرعی نظام، قابل تجدید توانائی اور آبی وسائل کی بہتری پر خرچ کرے۔ اس سے نہ صرف روزگار پیدا ہوگا بلکہ درآمدی ایندھن پر انحصار کم ہوگا اور زرِ مبادلہ بچے گا۔
ہمیں اوورسیز پاکستانیوں کو صرف زرمبادلہ کے ذرائع کے طور پر نہیں، بلکہ شراکت دار کے طور پر دیکھنا ہوگا۔ ایسے بانڈز، سرمایہ کاری زونز اور مراعات متعارف کروانے کی ضرورت ہے جن سے بیرونِ ملک پاکستانی اپنے ملک میں محفوظ سرمایہ کاری کر سکیں اور ان کی دولت سے معیشت کو مستقل سہارا ملے۔
آخر میں، ہمیں یہ ماننا ہوگا کہ آئی ایم ایف سے نجات صرف ایک دعائیہ عمل نہیں، یہ محنت، نظم، وژن اور قربانی کا تقاضا کرتا ہے۔ اس کے لیے ہمیں خود کو، اپنے طرزِ حکمرانی کو اور اپنی ترجیحات کو ازسرِنو ترتیب دینا ہوگا۔ جب تک ہم اس شیطانی چکر کو کاٹنے کی نیت اور ہمت نہیں کرتے، تب تک ہم خود انحصاری کے خواب کو سچ ہوتا نہیں دیکھ سکتے۔

