Mohmand Agency Ki Haalat e Zar
مہمند ایجنسی کی حالت زار
مہمند ایجنسی پاکستان کا ایک ایسا علاقہ ہے جسے دیکھ کے قرون اولی کے مسلم علاقوں کی یاد تازہ ہوجاتی ہے۔ سڑکوں کا نام و نشان نہیں۔ چند گڑھوں کے مجموعہ کا نام سڑک رکھ دیا گیا ہے۔ اس علاقے میں پانی عنقا ہے اور ہر نفس کو پانی 7 کلومیٹر سے لے کے آنا پڑتا ہے۔ گیس تو ان علاقوں میں ابھی تک دریافت ہی نہیں ہوئی۔
یہ تمام علاقہ بجلی کی سہولیات سے قطعا محروم ہے۔ رہا اسکول تو اسکی حالت زار کے کیا کہنے۔ سرکاری اسکول کی عمارت یقینا موجود ہیں مگر اساتذہ کا کوئی تصور نہیں۔ حتی کہ بچوں کے بیٹھنے کے لئے بنچ تک نہیں۔
صحت کی صورتحال تو انتہائی دگر گوں ہے۔ 10 کلامیٹر سے کم فاصلے پر ہسپتال نہیں اور وہاں جاتے جاتے بھلا چنگا انسان بھی بیمار ہوجاتا ہے۔ اعلی تعلیم کا کوئی ادارہ ان علاقوں میں نہیں۔
آزادی کے 72 سال تک یہ ادارہ کبھی آزاد نہ تھا۔ پولیٹیکل ایجنٹوں نے عوام تک کوئی سہولت جانے نہ دی۔ نمائشی طور پر خیبر پختونخوا میں شامل تو بادل نخواستہ کر لیا گیا، مگر فنڈز کی عدم دستیابی کے باعث یہ علاقہ آدھا تیتر آدھا بٹیر بن گیا۔
خدا ہی ملا نہ وصال صنم
ادھر کے رہے نہ ادھر کے ہم
ضرورت اس امر کی ہے کہ اہل علاقہ اور عمائدین، تمام سیاسی لیڈران سے مل کر اس علاقہ کی تعمیر و ترقی میں نمایاں کردار ادا کریں اور فنڈز کی بابت پوچھ تاچھ کریں۔ کہیں ایسا نہ ہو کہ اہل علاقہ بھی رد عمل کے طور پر ہتھیار اٹھا لیں۔ اگر خدانخواستہ کوئی ایسی روش چل نکلی تو اسکو روکنا کسی ریاستی ادارے کے بس میں نہیں رہے گا۔
حکومت وقت کی یہ ذمہ داری ہے کہ مضبوط اور جامع اقدامات کے ذریعے مہمند ایجنسی کی حالت زار کو بہتر بنایا جائے تاکہ یہاں رہائش پزیر آبادی بھی خود کو پاکستان کا حصہ سمجھے۔ اگر ارباب اختیار کے کانوں پر جوں نہ رینگی تو اس کے نتائج بہت خطرناک ہوں گے لہذا ان مسائل کو سنجیدگی سے لے کر ان کا حل کرنا وقت کی اہم ضرورت ہے۔