Jadeed Aurat Ki Purani Zanjeerain
جدید عورت کی پرانی زنجیریں

ایک طرف ہم فخر سے کہتے ہیں کہ ہماری بیٹیاں ڈاکٹر، انجینئر، وکیل اور ماہرِ تعلیم بن رہی ہیں اور دوسری طرف ان ہی تعلیم یافتہ بیٹیوں کو گھر کی چار دیواری میں محدود کرکے ان کی آواز، رائے اور آزادی کو دبایا جا رہا ہے۔
یہ ایک تضاد ہے، ایک خاموش مگر گہرا تضاد۔
آج کی عورت نے تعلیم کے میدان میں نمایاں کامیابیاں حاصل کی ہیں۔ یونیورسٹیوں کے داخلہ ٹیسٹ سے لے کر گولڈ میڈل تک، سی ایس ایس کے امتحان سے آئی ٹی تک، ڈسٹرکٹ ایڈمینسٹریشن سے پولیس سروس آف پاکستان تک، ہر جگہ اس کی محنت کی چمک نمایاں ہے۔ لیکن سوال یہ ہے کہ یہ تعلیم، یہ ڈگریاں اور یہ سرٹیفکیٹس کیا صرف شو کیس کی زینت ہیں؟ کیا معاشرہ عورت کی تعلیم کو صرف رشتہ طے کرنے کا معیار سمجھتا ہے، نہ کہ اسے بااختیار بنانے کا ذریعہ؟
ہماری بیٹیاں تعلیم حاصل تو کر لیتی ہیں، لیکن اکثر ان کے خوابوں کو وہی پرانی زنجیریں قید کر لیتی ہیں، "تمھیں نوکری کی کیا ضرورت ہے؟"، "نہ جانے سسرال کیسا ملے، زیادہ نہ پڑھنا"، "شوہر پسند نہیں تو کیا ہوا، خاندان کی عزت مقدم ہے"، "باہر کام کرو گی تو لوگ کیا کہیں گے؟"
یہ وہ جملے ہیں جو صرف الفاظ نہیں، بلکہ دیواریں ہیں جو ایک تعلیم یافتہ عورت کے ارد گرد کھڑی کر دی جاتی ہیں۔ حالانکہ محسن انسانیت رسول اللہ ﷺ نے ہر مسلمان مردوعورت پر علم کا حصول فرض قرار دیا ہے۔ یہ دیواریں اُس کی عقل، اُس کی قابلیت اور اُس کی خود مختاری کو روند کر گزر جاتی ہیں۔
حقیقت یہ ہے کہ تعلیم یافتہ ہونے کا مطلب صرف علم کا حصول نہیں، بلکہ اپنے فیصلوں میں آزادی، برابری کی سطح پر گفتگو کا حق اور معاشی خودمختاری بھی ہے۔ اگر ایک عورت تعلیم حاصل کرنے کے باوجود گھر کے فیصلوں میں بے اختیار ہے، اگر وہ اپنی مرضی کی زندگی نہیں گزار سکتی، تو کیا وہ واقعی "تعلیم یافتہ" کہلانے کے قابل ہے؟
معاشرے کو یہ سمجھنے کی ضرورت ہے کہ تعلیم کا مطلب صرف سند نہیں، بلکہ ایک سوچ، ایک فہم اور ایک حق ہے، جو عورت کو اپنے لیے، اپنی زندگی کے فیصلے کرنے کا اختیار دیتا ہے۔
ہمیں صرف بیٹیوں کو اسکول بھیجنے سے آگے بڑھنا ہوگا۔ ہمیں انہیں نہ صرف تعلیم دینی ہے، بلکہ ان کی آواز کو تسلیم کرنا ہے، ان کی سوچ کو عزت دینی ہے اور ان کے فیصلوں میں ان کے ساتھ کھڑا ہونا ہے۔
کیونکہ اگر تعلیم کے بعد بھی عورت بے اختیار ہے، تو ہم نے اصل میں کچھ نہیں بدلا، صرف لباس، زبان اور ڈگری کا پردہ ڈال دیا ہے اُس پرانی غلامی پر جو نسلوں سے جاری ہے۔

