Hamari Saqafat
ہماری ثقافت
ہماری ایک دوست نے ایک بہت اہم مسئلہ کی طرف نشاندہی کی ہے کہ ہمارے عزیز ہم وطنوں میں ایک شدید غلط فہمی پائی جاتی ہے جس کا ازالہ ازحد ضروری ہے۔ ہم لوگ اپنی ثقافت کے بارے میں کوئی ایک رخ لینے سے گریزاں ہیں، اور اسلامی کلچر کو عرب ثقافت سے گڈمڈ کرنے کی کوشش کرتے ہیں۔ آئیے ہم اس بات کو سمجھنے کی کوشش کرتے ہیں۔
اس سلسلہ میں جو سب سے جامع دستاویز ہمیں مل سکی وہ حضرت جعفر طیارؓ کی وہ تقریر ہے جو انھوں نے نجاشی کے دربار میں اس وقت کی جب حضرت عمرو بن العاصؓ (اس وقت غیر مسلم) کی قیادت میں آئے قریش کے وفد نے مکہ سے ہجرت کر آئے لوگوں کی واپسی کا مطالبہ کیا۔ نجاشی بادشاہ نے مسلمانوں کو مؤقف دینے کو کہا تو حضرت جعفر طیارؓ کھڑے ہوئے اور فرمایا
"بادشاہ سلامت، ہماری قوم نہایت جاہل تھی، ہم بت پوجتے تھے، مردار کھاتے تھے، بدکاریاں کرتے تھے، رشتہ داروں اور پڑوسیوں کو ستاتے تھے، طاقتور کمزوروں کو کھا جاتا تھا، غرض! ہم اسی بدبختی میں تھے کہ خدا نے خود ہی ہماری جماعت میں سے ایک شخص کو ہمارے پاس رسول بنا کر بھیجا، ہم اس کی شرافت، راستی، دیانت داری اور پاکبازی سے اچھی طرح آگاہ تھے۔
اس نے ہم کو شرک و بت پرستی سے روک کر توحید کی دعوت دی۔ راست بازی، امانت داری، ہمسایہ اور رشتہ داروں سے محبت کا سبق ہم کو سکھایا اور ہم سے کہا کہ ہم جھوٹ نہ بولیں، بے وجہ دنیا میں خونریزی نہ کریں، بدکاری اور فریب سے باز آئیں، یتیم کا مال نہ کھائیں، شریف عورتوں پر بدنامی کا داغ نہ لگائیں، بت پرستی چھوڑ دیں، ایک خدا پر ایمان لائیں، نماز پڑھیں، روزے رکھیں، زکوٰۃ دیں۔
ہم اس پر ایمان لائے اور اس کی تعلیم پر چلے۔ ہم نے بتوں کو پوجنا چھوڑا، صرف ایک خدا کی پرستش کی، اور حلال کو حلال اور حرام کو حرام سمجھا، اس پر ہماری قوم ہماری جان کی دشمن ہوگئی، اس نے طرح طرح سے ظلم و تشدد کر کے ہم کو پھر بت پرستی اور جاہلیت کے برے کاموں میں مبتلا کرنا چاہا، یہاں تک کہ ہم لوگ ان کے ظلم و ستم سے تنگ آ کر آپ کی حکومت میں چلے آئے۔ "
یہ ایک شہرہ آفاق تقریر ہے، جو ایک اعلیٰ ادب پارے کے طور پر مانی جاتی ہے۔ اس کے پہلے حصہ میں عرب کا کلچر بیان کیا گیا ہے، جبکہ دوسرے حصہ میں اسلامی ثقافت کی تعریف کی گئی ہے۔ لہٰذا دور جدید کے تقاضوں سے ہم آہنگ اسلامی ثقافت کا فروغ ہی ہمارا مشن ہے اور یہی ہمیں ہماری نشاہ ثانیہ کی منزل کی جانب رہنمائی کرے گا۔ ہمیں اب سنجیدگی سے اسلامی ثقافت کی سائیڈ لینی ہی پڑے گی تاکہ ہمارا قومی تشخص برقرار رہے۔