Friday, 05 December 2025
  1.  Home
  2. Blog
  3. Asfar Ayub Khan
  4. Be Tuka Taleemi Nizam

Be Tuka Taleemi Nizam

بے تکا تعلیمی نظام

یونیورسٹی تعلیم کو اعلیٰ تعلیم کہا جاتا ہے کیونکہ یہ عمومی خیال ہے کہ 16 سال، 18 سال اور 21 سال کی تعلیم ہی اعلیٰ تعلیم شمار کی جاتی ہے۔ کسی بھی فیلڈ میں ایم ایس، ایم فل، پی ایچ ڈی اور پوسٹ ڈوک کرنے والے لوگ ہی اس فیلڈ کے اعلیٰ تعلیم یافتہ لوگ ہوتے ہیں۔ راقم الحروف کو بھی یونیورسٹی میں بنیادی تعلیم یعنی انڈر گریجویٹ کے 25 سال بعد ایم ایس کی تعلیم کے لئے یونیورسٹی میں داخلہ کا شرف حاصل ہوا۔ ہم خوشی سے سرشار ہو گئے کہ اب تعلیم کی بہتی گنگا سے ہمیں بھی مستفید و مستفیض ہونے کا سنہری مو قع ملے گا، لیکن جب ہوش آیا تو خواب چکنا چور ہو چکے تھے۔

پہلا جھٹکا مڈ ٹرم امتحان میں لگا، جب 70 فیصد نمبر بھی نہ آئے۔ اساتذہ کرام سے رہنمائی چاہی تو معلوم ہوا کہ حاشیہ نہ لگا ہونے، جواب ختم ہونے پر لائن لگا کر ختم شد نہ لکھنے اور اگر جواب کوئی رقم ہے تو اس کے گرد ڈبا نہ بنانے کے باعث نمبر کٹے۔

ہمارا دماغ بھک سے اڑ گیا۔ یعنی مکمل ہارڈکور انجینئرنگ کی ڈگری میں مواد کی کوئی اوقات کوئی حیثیت نہیں؟ امتحان میں کیا لکھا ہے اس سے کسی کو کوئی سروکار نہیں، بس حاشیہ اور ختم شد ٹھیک ہونا چاہیے۔ اسی دن ایک پیمانہ (آج کل تو رولر ہی کہتے ہیں) اور 4 رنگوں کے مارکر خریدے۔ الحمدللہ اگلے کافی مضامین کے نتائج میں اے گریڈ دیکھا۔

وقت پر لگا کر اڑتا رہا تا وقتیکہ ریسرچ تھیسیس کا وقت آگیا۔ اساتذہ کرام سے رہنمائی چاہی تو انھوں نے ہماری عمر کا لحاظ کرتے ہوئے کسی سے ٹھیکے پر تھیسیس لکھوانے کا صائب مشورہ دیا، پر ہم کہاں ماننے والے تھے ہم پر تو خودی اور سیکھنے کی دھن سوار تھی۔ مزید گہرائی میں اترنے پر معلوم ہوا کہ ریسرچ کا مطلب یہ ہے کہ کسی کے کئے ہوئے کام کو اپنے الفاظ میں لکھو اور آگے ریفرنس دے دو۔ یہ تو انتہائی بورنگ کام تھا۔ اس دشواری کو مصنوعی ذہانت سے دور کیا۔ خیر ایک سروے کرکے اس کے ریزلٹس کو لکھا اور تھیسیس کا دفاع کامیابی سے کر لیا اور اپنے تعیں سوچا کہ اب کام ختم ہوا۔ مگر یہ ہماری خام خیالی ثابت ہوئی۔

ہمارے دوستوں اور خیر خواہوں نے بہت کہا کہ طباعت کا کام کسی کو محنتانہ دے کر کروا لیا جائے مگر ہم پر تو سیکھنے کی دھن سوار تھی۔ جب مکمل پرنٹ لے کر جمع کروانے گئے تو معلوم ہوا کہ وہاں بیٹھا ہوا کلرک، جس کی تعلیم ایم ایس انجینئرنگ ہے، پیمانے سے حاشیے چیک کرنے لگا۔ ہمیں اپنے دادا سسر کی یاد آگئی جو تین دہائیاں پہلے جنگ اخبار میں کتابت کے فرائض سرانجام دیتے تھے اور وہ اس طرح پیمانہ استعمال کرکے اخبار لکھتے تھے۔ بہر حال خدا خدا کرکے تمام حاشیہ جات پورے کرکے اب جمع کروایا ہواہے اور دل دھک دھک کر رہا ہے۔ ادھر ہمارے ذہین کلاس فیلوز جنھوں نے سب کام ٹھیکے پر کروایا، کب کے ڈگریاں لے کر بھی جا چکے ہیں۔

قارئین کرام، یہ مختصر آپ بیتی سنانے سے کوئی تائید یا تعریف کروانا مقصود نہیں، بلکہ یہ نظام تعلیم پر ایک طمانچہ ہے۔ ہمارے شاگرد پوچھتے ہیں کہ ایم ایس سے کیا سیکھا اور ہم بتاتے ہیں کہ حاشیہ دوبارہ سیکھا اور طباعت و تدوین سیکھی، مگر اساتذہ اور دوسرے سٹاف نے اس چیز کا بھرپور اہتمام کیا کہ کوئی طالب علم انجینئرنگ کا ایک لفظ بھی سیکھ نہ پائے اور اس امر پر بھرپور زور دیا کہ ٹھیکے پر پڑھائی کا کام کروایا جائے۔

خدارا اگر یہ کام کرنا ہے تو لوگوں کا اتنا وقت نہ ضائع کریں اور لمپ سم پیمنٹ لے کر ڈگریاں دیں۔ یونیورسٹیاں بند کر دیں صرف پیمنٹ کاؤنٹر بنا دیں۔ اساتذہ کرام کے لئے آسانیاں پیدا کریں اور انھے گھر بیٹھے تنخواہ اور مراعات دیں۔ ایسا کرنے سے عوام کو ڈگریاں بھی مل جائیں گی اور آنے جانے پر ضائع ہونے والا پٹرول بچنے سے عوام کی معاشی حالت اور ماحولیات میں بہتری بھی آئے گی۔

مزید برآں ایچ ای سی میں ردی کو سنبھالنے والے ہزاروں بابووں کی زندگی بھی آسان ہوگی جو اس ریسرچ کو سنبھال سنبھال کر رکھتے ہیں جس کا 78 سال میں ملک کو کوئی فائدہ نہ ہوا نہ کبھی ہونا ہے۔ ہم سمجھتے ہیں کہ ان لوگوں کو نوکریاں دینا بھی ضروری ہے لہذا ان کو یونیورسٹیوں سے ریکوری ٹیموں میں تبدیل کرکے قیمتی زر مبادلہ کمایا جائے۔

Check Also

Mufti Muneeb Ur Rehman

By Abid Mehmood Azaam