1.  Home/
  2. Blog/
  3. Arif Anis Malik/
  4. Apne Dand Khud Nikalo

Apne Dand Khud Nikalo

اپنے ڈنڈ خود نکالو

"ہم پہاڑ کو نہیں اپنے آپ کو فتح کرتے ہیں"۔

سر ایڈمنسڈ ہیلری نے یہ جملہ دنیا کی سب سے اونچی چوٹی ماؤنٹ ایورسٹ کو سر کرنے کے بعد کہا تھا اور سچ تو یہ ہے کہ یہ جملہ اسی شخص کو زیبا ہے جو ماؤنٹ ایورسٹ پر اپنا جھنڈا گاڑ چکا ہو۔

دُنیا کے مشہور ترین مصنفین میں سے ایک، جیک کین فیلڈ نے 2015 میں ملاقات میں یہ واقعہ سنایا تھا۔ جیک کی چکن سوپ سیریز کی کروڑوں سے زائد کتابیں فروخت ہو چکی ہیں اور دنیا بھر میں لاکھوں افراد اس پر جان نچھاور کرتے ہیں۔ لندن میں جیک اور میں یورپ سے آئے ہوئے سینئرز لیڈرز کی ٹریننگ میں اکٹھے ہوئے تھے۔ ملازمت میں جیک کا پہلا ہفتہ تھا جب اس کے مالک نے بلایا اسے اور اس کی آنکھوں میں دیکھتے ہوئے پوچھا، کیا تم اپنی زندگی میں ہونے والے واقعات کی سو فیصد ذمہ داری لیتے ہو"؟

جیک نے سر ہلایا۔ "میرے خیال میں، جی ہاں ایسا ہی ہے"۔

"شہزادے۔ مجھے ہاں، یا ناں میں جواب دو" باس کی گرجدار آواز گونجی۔

"اوہ۔ سچ پوچھو تو مجھے کچھ اندازہ نہیں ہے کہ آپ کیا جاننا چاہتے ہیں"؟ جیک نے کان کھجاتے ہوئے کہا۔

"چلو میں کچھ مزید آسان کر دیتا ہوں، کیا تم نے آج تک اپنے ساتھ ہونے والے واقعات کا دوش کسی اور کو دیا ہے؟"

"کیا کوئی ایسا شخص جسے تم اپنی حیاتی میں گڑبڑ ہونے کا الزام دے سکو"۔

"آں، ہاں۔ میرے خیال میں ایک دو ایسے لوگ ضرور ہیں، موجود ہیں" جیک کے منہ سے بےاختیار نکلا۔

ہوں۔ پھر تم میرے زیادہ کام کے نہیں ہو "آگے سے روکھا سا جواب ملا۔ " مجھے ان لوگوں کی تلاش ہے جو اپنے کیے دھرے کا بوجھ خود اٹھا سکیں۔ دنیا بدلنے والے لوگوں نے کبھی کسی کو الزام نہیں دیا۔ وہ کامیاب ہوں، یا ناکام وہ سو فیصد اس امر کی ذمہ داری لیتے ہیں۔ مجھے وہ لوگ نہیں چاہئیں جو پانی، ہوا، ماحول، بارش، بجلی، گرمی، سردی وغیرہ پر اپنا الزام دھر دیں اور کسی نہ کسی بہانے کی آڑ میں پناہ لینے کی کوشش کریں"۔

جیک کین فیلڈ کا کہنا تھا کہ اسی دن اس نے تہیہ کر لیا کہ آج کے بعد وہ کسی پر بھی الزام تراشی نہیں کرے گا۔ کیونکہ اس کے بقول اس نے کامیابی کے پہلے گُر کو پا لیا تھا۔

میں پاکستان میں خود جب کبھی بھی کسی کالج، یونیورسٹی میں کامیابی کے موضوع پر دھواں دھار گفتگو کرتا ہوں، اختتام پر کسی لڑکے یا لڑکی سے ملاقات ضرور ہوتی ہے۔

"بہت شکریہ سر۔ کمال کر دیا آپ نے۔ بہت اچھی باتیں بتائیں آپ نے مگر میں کس طرح سے غیر معمولی نتائج حاصل کر سکتی ہوں"؟

"بہت آسان ہے۔ ان تمام اچھی باتوں میں سے ایک اچھی بات پکڑیں اور اسے کرنا شروع کر دیں۔ اچھی باتیں جمع کرنے سے کچھ نہیں بدلے گا"۔

ایسے سیمنارز کے اختتام پر عموماً یہ احساس ہوتا ہے کہ شرکاء صرف اپنے مسائل کا حل نہیں جاننا چاہتے، بلکہ وہ چاہتے ہیں کہ کوئی دوسرا جاگنگ یا ورزش کرے اور اس کے اثر سے ان کا وزن کم ہو جائے۔

عمومی طور پر کچھ اس طرح کا مکالمہ چلتا ہے۔

"میں پچھلے تین سال سے موٹیویشن کے کورسز کیئے جا رہا ہوں اور اس موضوع پر 100 عدد کتب بھی پڑھ چکا ہوں، لیکن اس کے باوجود میری زندگی میں کوئی تبدیلی نہیں آ رہی ہے"۔

"تبدیلی کتاب کو پڑھنے سے نہیں، کتاب کو کرنے سے آتی ہے۔ اگر آپ ایک ڈھنگ کی کتاب پڑھیں اور اس میں سے کچھ سیکھ کر ڈھنگ کا ایک کام شروع کر دیں تو آپ کو یہ گلہ کرنے کی ضرورت آئے گی"۔

گلہ کرنے کی بات چلی تو اس بات پر خوب مزے کا ڈائیلاگ چلتا ہے۔

"سر بس میں چونکہ گاؤں کا ہوں، اسی وجہ سے پیچھے رہ گیا ہوں؟"

"اچھا وہ کیسے؟ میں تو خود بھی گاؤں کا ہوں۔ اس وجہ سے آپ پیچھے کیسے رہ سکتے ہیں؟ ہمارے ملک کے واحد نوبل انعام یافتہ سائنسدان ڈاکٹر عبدالسلام آخری وقت تک پینڈو تھے"۔

"سر دراصل میرے والدین کا بچپن میں انتقال ہوگیا تھا اور خاندان والوں نے کسی جوگا نہیں چھوڑا"۔

"اچھا وہ تو دنیا میں کئی نامی گرامی بادشاہ اور فاتح ایسے گزرے ہیں جن کے ماں باپ کا بچپن میں انتقال ہوگیا، مگر انہوں نے کئی سو سال قائم رہنے والی سلطنتیں قائم کیں۔ فرغانہ سے بھگائے جانے والے ظہیرالدین بابر کے بارے میں کیا خیال ہے؟"

"سر آپ کو تو پتہ ہی ہے کہ ہمارے ملک میں تو بس سفارش چلتی ہے۔ اور اپنا تو کوئی ایسا ہے ہی نہیں جو اس چوٹی کو سر کر سکے"۔

"ہاں، مجھے پتہ ہے کہ ہمارے ہاں سفارش بھی چلتی ہے۔ لیکن اگر آپ مشقت کر سکیں تو کوئی آپ کو روک نہیں سکتا۔ میں خود ایک پسماندہ گاؤں سے تعلق رکھتا ہوں اور کم از کم اپنے حلقہ احباب میں درجنوں ایسے لوگوں کو جانتا ہوں جو صرف اپنی محنت کی بنیاد پر کامیاب ہو پائے ہیں۔ انہوں نے سی ایس ایس کیا، پی سی ایس کیا، فوج میں افسر بنے اور ان کے پاس کوئی سفارش نہیں تھی"۔

"سر، کون نہیں جانتا کہ ہمارے سیاست دان بہت کرپٹ ہیں، اتنے کرپٹ معاشرے میں بھلا کیسے سروائیو کیا جا سکتا ہے؟"

"درست، سیاست دان کرپٹ ہیں اور سیاست دان دنیا کے بہت سے ممالک میں کرپٹ ہیں، لیکن سیاست دان کے دیانت دار ہونے سے آپ کی کامیابی کا کیا تعلق ہے؟ آپ کو اپنی کامیابی کی ذمہ داری سو فیصد خود سے اٹھانی پڑے گی۔ کوئی بھی شخص دوسرے کے لیے ڈنڈ بیٹھکیں نہیں نکال سکتا۔ نکال بھی لے تو فائدہ اسی کو ہوگا آپ کا کچھ بھلا نہی ہوگا"۔

"سر، پاکستان میں بزنس نہیں ہو سکتا۔ ایسے حالات میں بزنس کون کرے گا؟"

"میں تو اس بات سے متفق نہیں ہوں۔ پاکستان شاید دنیا میں بزنس پر سب سے زیادہ ریٹرن دینے والا ملک ہے، پچھلے تین سالوں میں کئی ایسے بزنس مینوں کو جانتا ہوں جو لندن کے بہترین علاقوں سے بزنس باندھ کر پاکستان گئے اور ان کا کہنا تھا کہ پاکستان جا کر ان کو لگا کہ وہ برطانیہ میں آج تک جھک مارتے رہے تھے"۔

"سر آپ کا مطلب یہ ہے کہ ہمارے ملک میں سب اچھا ہے، بم دھماکے، پولیس گردی، بجلی، گیس کے مسائل یہ سب ہمارا وہم ہے؟"

"نہیں، یہ سب مسائل حقیقی ہیں۔ مگر دنیا کا کوئی ایسا ملک نہیں جہاں پر چوری، ڈکیتی، یا امن عامہ سے متعلق مسائل نہ ہوں میں لندن میں دو مرتبہ لٹ چکا ہوں اور کم از کم دس بارہ افراد کو جانتا ہوں جن کے ساتھ کوئی نہ کوئی واردات ہو چکی ہے۔ تاہم مسائل دو طرح کے ہوتے ہیں ایک تو مسائل کا گول چکر، جو سرکل آف کنسرن کہلاتا ہے، بجلی، گیس، کالاباغ ڈیم، الیکشن میں دھاندلی وغیرہ وہ معاملات ہیں جن کے بارے میں آپ پریشان تو ہو سکتے ہیں مگر شاید فوری طور پر کچھ کر نہیں سکتے، تاہم ایک اور گول چکر وہ ہے جس پر آپ فوراً کچھ کر سکتے ہیں۔

اگر بیٹھے بٹھائے وزن بڑھ رہا ہے، تو پنجیری اور گاجر حلوہ کھانے کی عادات بدل لیں، دن میں چھ گھنٹے ٹی وی کے سامنے بیٹھ کر ملکی حالات پر تبصرہ سننے یا کڑھنے اور جی جلانے کی بجائے دن میں ایک گھنٹہ وہ کرنا شروع کر دیں جو آپ ملک کے لیے کرنا چاہتے ہیں"۔

"سر، اصل میں ملک سے کوئی مخلص نہیں ہے، پتہ نہیں ہمارا کیا بنے گا؟"

"آپکا وہی بنے گا جو آپ خود بنائیں گے۔ اس ملک کا وزیراعظم جو بھی ہوگا آپ کو اپنی زندگی کی گوڈی خود کرنی پڑے گی۔ باقی جہاں تک پاکستان کا تعلق ہے تو کیا آپ مجھے کوئی ایسا کام بتا سکتے ہیں جو آج تک آپ نے صرف پاکستان کے لیے کیا ہو اور جس میں آپ کا کوئی ذاتی فائدہ نہ ہو؟"

یہ مکالمہ عمومًا ان الفاظ پر آ کر ختم ہو جاتا ہے۔

تو پیارے پڑھنے والے، اگر امتحان میں کام نہیں بنا تو اس کی وجہ وہ گھنٹے ہو سکتے ہیں جو آپ نے بستر میں گزارے ہوں، اگر توند بڑھ آئی ہے اور بلڈ پریشر اور شوگر کا مرض لاحق ہو چکا ہے تو اس کی ذمہ داری ان چکنائی بھری خوراکوں پر عائد ہوتی ہے جو آپ ابھی کھانا چھوڑ سکتے ہیں۔ اگر آپ ابھی تک بے روزگار ہیں تو شاید آپ نے تاحال کوئی ہنر نہیں سیکھا۔ اگر لوگوں نے آپ کو بتایا کہ آپ دنیا کے سب سے نکمے اور ناکام انسان ہیں تو آپ نے ان کی بات کو سچا جانا اور جھٹلانے کی کوشش ہی نہیں کی۔

اگر آپ کو پروموشن نہیں مل سکی تو آپ عمومًا دفتر دیر سے پہنچتے ہیں اور کافی عرصے سے آپ نے کوئی نئی مہارت حاصل نہیں کی، اگر آپ کا مقامی ایم این اے بدمعاش ہے تو آپ نے اس کو ووٹ دیا، یا اس سے بہتر شخص کو ووٹ نہیں دیا، اگر آپ کی آمدن نہیں بڑھ رہی تو شاید آپ کو ملازمت نہیں، بزنس کرنے کی ضرورت ہے۔ اور اگر آپ کا ٹی وی پر سیاست پر مکالمہ سن کر دم گھٹتا ہو محسوس کرتے ہیں تو شاید وقت آ چکا ہے کہ آپ ٹی وی بند کر کے کوئی بہتر کتاب اٹھا لیں یا ورزش کے لیے باہر نکل جائیں۔

یاد رکھیں اپنے حصے کی کنڈی آپ کو خود ہی کھولنی پڑے گی۔ کوئی بھی کسی دوسرے کے حصے کے ڈنڈ نہیں نکال سکتا۔

Check Also

Shahbaz Ki Parwaz

By Tayeba Zia