Udasiyan Hain Har Su, Ye Kaise Dunya Hai?
اُداسیاں ہیں ہر سُو، یہ کیسی دنیا ہے؟
اُداس چہرے، ویران آنکھیں جِن کے گردسیاہ حلقوں کی صورت اختیار کیے ٹوٹے ہوئے خواب، بے چین دِل، تِشنہ روح اور بے خواب راتیں، گویا آج کل یہ داستان ارضِ وطن پر بسنے والے ہر پاکستانی کی ہے۔ کہیں نوجوان نسل اپنے سامنے خاک ہوتا اپنا مستقبل دیکھ رہی ہے تو کہیں قوم کے بزرگ اپنے سامنے اسلاف کے وِرثے کو لُٹتا دیکھ کر بےتاب ہیں۔ کہیں کسی بیوہ ماں کی آنکھیں یتیم بچوں کے رزق کی فکر میں ساری رات نیند سے نا آشنا ہوتی ہیں تو کہیں کوئی باپ، اچھے رشتے کے انتظار میں گھلتی جوانی سے ادھیڑ عمر کی طرف جاتی بیٹی کو دیکھ رہاہے۔ کسی صحن کی دیواریں غربت کی صدائیں سنتی ہیں تو کوئی ماں بے روزگار نوجوان بیٹے کے آنسوؤں کی گواہ ہے۔
آج 2025کے پاکستان میں جس قدر افراتفری اور اضطراب ہے، اگر دس سال پیچھے چلے جائیں تو شاید موجود نہیں تھا۔ کوئی اِسے ریاست کی نااہلی گردانتا ہے تو کوئی مہنگائی کے سر اِسکا سہرا ڈالتا ہے پر دراصل اِن سب باتوں کی سب سے بڑی وجہ خود انسانوں کا دوسرے انسانوں کی زندگی مشکل بنانا ہے۔ صبر، تحمل، برداشت، دوسروں کے عیبوں پر پردہ پوشی یہ سب چیزیں تو قصۂِ پارینہ ہو چکی ہیں۔ آج کے انسان میں اگر کچھ ملے گا تو وہ ہے اَنا، خود پرستی، دوسروں کو کچلتے ہوئے آگے بڑھنے کا شوق، اپنا سٹیٹس معاشرے میں موجود باقی سب لوگوں سے بڑھانے کا جنون اور اکثر اگر اِس جنون میں معاشرے سے جڑے باقی لوگوں کے وقاراور عزت پر سے گزرنا پڑےیاپھر دھوکہ دہی سے کسی مثبت انسان کی شخصیت کیوں نہ مسخ کرنی پڑے، کوئی بھی سودا گھاٹے کا نہیں ہے۔
حاصل کی اِس جنگ نے انسان سے کب انسانیت چھین لی اور اِس معاشرے کو جہنم سے بدتر بنا دیا، یہ حقیقت خود انسان بھی نہیں جانتا۔ اگر آپ نظر اٹھا کر دیکھیں تو ملک کے کسی کونے میں سنی کافر، شیعہ کافر کے نعرے ہونگے تو کوئی بلوچی پنجابی کی بحث میں ماؤں کے بیٹے مار رہا ہے، کہیں ایک سیاسی جماعت دوسری کے لوگوں کو اُٹھوا رہی ہے تو کہیں مخالفین سوشل میڈیا پر پست زبان استعمال کرتے نظر آرہے ہیں، گویا کہ انسانوں نے خود ہی زمین کو اس قدر گھٹن زدہ بنادیا ہے کہ اب ہر صاحبِ ضمیر شخص کا سانس لینا دشوار ہوگیا ہے۔
ہمیں اس بات کی تو سخت فکر ہوتی ہے کہ ہمارے اردگرد کون نماز ہاتھ باندھ کے پڑھتا ہے اور کون ہاتھ کھول کر، کون سود کھاتا ہے اور کون حرام کھاتا ہے لیکن کیا ہم نے اُسی رشتہ دار یا ہمسائے سےکبھی یہ بھی جاکر پوچھا ہے کہ گھر میں کھانے کو کچھ ہے یا فاقے چل رہے ہیں؟ کیا سردی کی شدت میں تمہارے بچوں کے پاس پہننے کو لباس ہے یا نہیں؟ اسلام نے تو"انسانیت" کو بلندی کا معیار قرار دیا تھا پھر کیوں اسلام کے ٹھیکیدار منبروں پر بیٹھ کے دوسروں پر کفر کے فتوے لگا کر خدا کے حصے کے کام کرتے تو نظر آتے ہیں پر یہ تبلیغ کبھی نہیں کرتے کہ "انسان" کیسے بننا ہے۔
اِس سوشل میڈیا کے دور نے جتنا انسان کو "سوشلائز" کیا ہے شاید اُس سے کہیں زیادہ اداس بنا دیا ہے۔ انسٹاگرام، فیس بُک پر بظاہر زندگی سے بھرپور نظر آنے والا شخص درحقیقت زندگی کی کن تلخیوں سے گزر رہا ہے یہ کوئی نہیں جانتا اور شاید جاننا بھی نہیں چاہتا۔ سوشل میڈیا نے انسان کے اصل چہرے پر اتنے خول چڑھا دیے ہیں کہ شاید ہی وہ خود بھی خود کو صحیح سے جانتا ہو۔ ایک دوسرے سے ہر لمحہ جڑے ہونے کے باوجود ہر شخص معاشرتی تنہائی کا شکار ہے۔
زرا خود سے سوال تو کریں کہ آج تک کتنے لوگوں کو خاموش یا بےچین پا کر آپ نے انہیں کہا ہو کہ، "تمہیں سننے کے لیے میں موجود ہوں" یا ہم مِل کر تمہاری مشکل کا حل نکال لیں گے! آج اگر آپ کسی کو کوئی قیمتی چیز دے سکتے ہیں تو وہ ہے آپ کا وقت، آپ کے الفاظ۔ قدرت نے آپ کے ذمے بھوکے کو کِھلانا لگایا ہے نہ کہ اسکے حلال و حرام کے حساب کا ترازوں ہاتھ میں تھمایا ہے۔ اگر ہر انسان صرف "معاشرہ رہنے کے قابل نہیں رہا" کہنے کی بجائے اپنے حصے کی خیر بانٹنا شروع کر دے تو یہ ملک اور معاشرہ جنت کی تصویر ہوگا- یقین مانٔیے کہ زندگی سب کیلئے ہی مشکل ہے۔
اپنے سے جڑے لوگوں کے حالات دریافت کرتے رہا کریں، بعد میں جنازوں کو جاکر کندھا دینے سے کچھ حاصل نہیں ہوتا۔ اگر آپ کی موجودگی میں کوئی زندگی سے شکست کھا کر گُھٹ گُھٹ کر مر جائے تو یہ قدرت کا آپکی تخلیق پر بڑا سوالیہ نشان ہے اور شاید کہیں نہ کہیں اس کے قاتل بھی آپ ہی ہیں۔ خود کو دوسروں کے لیے تناور ٹھنڈا درخت بنائیں کہ جس کی چھاؤں میں دوسرے انسان اپنی زندگی کی ساری تلخیاں بھول جائیں۔ حاصل کی چاہ کو چھوڑیئے اور انسانیت کے حصول کیلئے خود کو وقف کردیں، پھر دیکھیں کہ عرشِ بریں کا مالک کس طرح سے اطمینان و سکون آپکو مَلک کرتا ہے۔
یہ پاکستان ہماری جان، ہماری روحوں کا حصہ، ہمارا ایمان اور ہماری بقا ہے۔ کبھی بھی اپنے رویوں کی تلخی سے اس جنت کے سکون کو غارت نہ ہونے دیں۔ تمہارے لہجوں کی تلخیاں اگر ختم ہو جائیں تو تمہارے گرد سارا معاشرہ حسین ہوگا۔ پاکستان تم سے ہے اور تم ہی تو پاکستان ہو، اسکی عزت، شان اور کُل اساسہ!
یہ کس نے بوئی اداس نسلیں
جو اپنے ڈھانچے چبا رہی ہیں!
وبا سے بڑھ کر ہماری سوچیں
ہمارے جسموں کو کھا رہی ہیں!
پاکستان زندہ باد
پاکستانی پائندہ باد!

