Sunday, 28 April 2024
  1.  Home/
  2. Blog/
  3. Aleen Sherazi/
  4. Toofan Al-Quds, Al-Aqsa

Toofan Al-Quds, Al-Aqsa

طوفان القدس، الاقصٰی

چِھدے ہوئے بدن، کٹی ہوئی لاشیں، باپ کی میت پہ بِلکتے بچے، کڑیل جوان بیٹوں کے لاشوں پہ فریاد بُلند کرتی مائیں، عصمت دری کا نشانہ بنتی شریف بیٹیاں، نار کے شعلوں میں جلتے ہوئے گھر، ملبوں تلے دفن ہوکر مرنے والے نومولود بچے، حالتِ نماز میں چھلنی ہونے والے سینے، ہواؤں میں بارود کی بُو، دھماکوں سے تھرتھراتی زمین لہُو اُبلتی مٹی۔۔

جی ہاں! یہ مناظر روزِ حشر کے نہیں بلکہ قیامتِ صغریٰ کے ہیں اور یہ زمین سرزمین کربلا نہیں بلکہ سرزمینِ القدس ہے جس نے اپنی مٹی میں الٰہی رازوں کو سمویا ہے اور آغوش میں کتنے ہی نبیوں کو پالا ہے۔ یہ کہانی ہے مسلمانوں کے قبلۂِ اول کی جس کی تاریخ کو 76 سالوں سے خون کی روشنائی سے ٹکڑے ٹکڑے ہوئےمعصوم لاشوں پہ لکھاجارہاہے۔

1947 سے 2023 تک 76سالہ بربریت کی یہ داستان جِو صیہونی فوجیوں اور اسرائیلی جرنیلوں کی ہَوَس و لوٹ مار سے بھری پڑی ہے اُس وقت دلچسپ مرحلے میں داخل ہوتی ہے جب لشکرِ خدا یعنی حماس اور حزب اللہ کے جرار فوجی نوجوان سر پر موت کی سیاہ پٹیاں باندھے اسرائیل پر حملہ آور ہوکر اِسے یہودیوں کا قبرستان بنا دیتے ہیں۔

آج پوری دنیا ردِ وعمل میں اِس بیانیے کو گَھڑ رہی ہے کہ معصوم اسرائیلی شہریوں پہ حملے کرنا ناقابلِ برداشت عمل ہے، لیکن سوال تو یہ ہے کہ اگر یہ لوگ معصوم شہری ہیں تو پھر فلسطین کے مظلوموں کا جرم کیا ہے؟ دو دِن کے حملوں میں ہی اسرائیل مظلوم بَن گیاتو پھر 76سال سے ستم کے ساتھ بہائے جانے والے مسلمانوں کے لہُوکا رنگ کِس کے ہاتھوں پہ تلاش کریں ہم؟

افسوس کی بات یہ نہیں کے دنیا بھر کے یہود و نصاریٰ فلسطینیوں کے خلاف صف بستہ ہوگئے ہیں، بلکہ جھنجھوڑ دینے والا نقطہ یہ کہ امریکہ، کینڈا وغیرہ کے علاوہ کئی نام نہاد مسلمان ریاستوں کے موقع پرست رہنما بھی اسرائیل کے حق میں ہونے والوں میں سرِ فہرست ہیں، چاہے وہ شیخ النہیان ہو یاشاہی قصر میں رہنے والے سعودی شہزادگان!

اسلامی جمہوریہ ایران نے جرأت کا نشان بنتے ہوئے امدادی کارروائیوں میں بڑھ چڑھ کے حصہ لینے کا اعلان کیا ہے، افغانی مسلمان اسرائیل تک پہنچنے کا راستہ مانگ رہے ہیں۔۔ سوال یہ ہے کہ مظلوموں کا بڑا حمایتی ترکیہ کہاں گیا اور سب سے بڑھ کر سرزمینِ مکہ کے فرزند کیوں سرزمینِ القدس کو بچانے کیلئے نہیں آپارہے؟ منظر سے کہاں غائب ہوگئے آلِ سعود؟

سب سے زیادہ چُبھتا ہوا سوال تو یہ ہے کہ ہمارا سلامی جمہوریہ پاکستان کس کے ساتھ کھڑا ہے؟ کیا اِن کےدل بھی وہاں ہی دھڑک رہے ہیں جہاں انکے مذمتی بیان جارہے ہیں! مگر کیا آپ کو نہیں لگتا کہ پاکستان کے اشرافیہ کسی مفادات کی دلدل میں پھنستے چلے جارہے ہیں۔

عرب کی امداد اور امریکی ڈالرز کے ٹکڑوں پہ پلنے والا ملک اِس وقت، جب یمن و ایران سینہ ٹھوک کر صیہونی بندوقوں کے سامنے ڈٹے ہوئے ہیں، اور جا بھی بھلا کِس سمت سکتا ہے؟ اگر کھل کر فلسطینی مظلوموں کے حق میں میدانِ عمل میں اُترتا ہے تو امریکہ و عرب کے قہر کا شکار ہوتا ہے اور اگر یروشلم کا رُخ کرتا ہے تو پاکستان کے غیور عوام اِنہیں ٹکڑے ٹکڑے کر ڈالیں گے-

اِس وقت تک کی صورتحال کے مطابق ایک طرف سے سُنی دلیروں کی حماس اور دوسری طرف شمالی اسرائیل پر حملہ کرتے ہوئے حزب اللہ کے ضیغم جوان میدانِ کارزار میں اُتر چُکے ہیں اور اسرائیل کو یہودیوں کی مقتل گاہ بناڈالاہے۔ شیعہ حزب اللہ اور سنی حماس کی تنظیموں نے ظلم کے خلاف شانہ بشانہ کھڑے ہو کردنیابھر کے شیعہ-سُنی فرقہ ورانہ فسادات کی کمر توڑ کر رکھ ڈالی ہے۔

جب تک مسلم اُمہ کے جسم میں سانسوں کی ڈور سینے میں دھڑکتے دل سے وابستہ رہے گی، کِس کی جرأت ہے کہ سرزمینِ القدس کو یہودیوں کا قصر بنانے کا خواب پورا کرسکے- جیسا کہ شہید عباس بابائی کے جملے ہیں: "خدایا! جِس کو تیرے شوق میں پرواز کی آرزو ہو، اُس کا وجود بھلا زمین کی اسیری کیسے برداشت کر سکتا ہے؟"

اِس وقت جب اسرائیل کے پارلیمانی ایوانوں میں بیٹھے لوگ چیخ چیخ کر کہہ رہے ہیں کہ اسرائیل خود اِس غارت گِری کا ذمے دار ہے، کچھ مسلمان کہہ رہے ہیں نہیں نہیں! یہ انتہا پسندی ہے۔ ہم وہاں جاکر لڑ تو نہیں سکتے لیکن کم سے کم اپنے اندر کی جہالت کو مات تو دے سکتے ہیں نا، مظلوم کے ساتھ نہ ہو تو کم ازکم ظالم کے حامی بھی نہ ہو!

بچپن سے سنتے آرہے ہیں کہ اسرائیل نے غزہ پر قبضہ کر رکھا ہے مگر اب معلوم ہوتا ہے کہ اسرائیل تو پورے عرب پر قابض ہے۔۔ سوائے غزہ کے!

Check Also

Kya Hum Radd e Amal Ki Qaum Hain

By Azhar Hussain Azmi