Malka e Fidak, Fatima Zahra
ملکۂِ فِدک، فاطمۃُ الزہرا سلام اللّٰہ علیہا
فاطمۃُ الزہرا سلام اللہ علیہا، کائناتِ یزداں کا وہ، واحد اور منفرد، مَلَکوتی اِسمِ گرامی کہ جِس کی مدح میں کچھ بھی لکھنے سے، قلم عاجز اور ہاتھ لرزاں ہیں۔ گویا کہ کائنات کی کُل عظمتیں، بلندیاں، عصمتیں، طہارتیں، شرافتیں اور پاکیزگیاں، فاطمہؑ کے اِس نقطۂِ "ف" میں سمٹ گئی ہیں اور یہ نام مومن کیلئے مشکل میں اِسمِ اعظم ہے بلکل اِسی طرح جس طرح سے خود پیغمبرِ اسلام ﷺ، جب شدید مصیبتوں میں گِھر جاتے تو اپنی اُمِ ابیہا (یعنی اپنے باپ کی ماں۔۔ لقبِ جناب سیدہ) بیٹی کی چادرِ تطہیر میں لِپٹ جاتے اور اِس طرح سے تسکین پاتے کہ خود خُدائے لَم یزل ردائے فاطمہؑ کی شان میں آیات نازل کرتا۔
کہیں پر یہ بی بی وکیلِ توحید بنی ہے تو کہیں پر نائبۂِ نبوت، کہیں بقائے ولایت ہے تو کہیں پر روحِ اسلام نظر آئی ہے اور پھر سب سے قابلِ ذکر بات یہ کہ یہ شہزادی اِن میں جِس منصب پر نظر آئیں، اللہ نے ساتھ ساتھ قرآن میں جنابِ عالمتہُ غیرِ معلمہ کا قصیدہ پڑھا۔ کبھی آیتِ تطہیر دہلیزِ زہرا پہ نازل ہوئی تو کبھی آیتِ مباہلہ شہزادی کے گھرکی زینت بنی، کبھی آپکی سخاوت و ایثار پر اللہ نے پوری سورۂِ الدھر نازل کی جسکی ہر آیت صدیقۃُ الکبریٰ کی شان کا قصیدہ ہے تو کبھی سورہ الکوثر اپنے نبی پہ اُتار کر ذاتِ توحید نے جنابِ زہراؑ کو بقائے نسلِ نبوت قرار دیا کہ جنابِ سیدہ کُل انبیاء کی بقا اور شجرۂِ نبوت کی اکلوتی وارث ہیں۔
جب یہ شہزادی گھر کے اندر رہیں تو کبھی جبرائیلؑ اِنکے گھر کی چکی چلانے آتے رہے اور کبھی رضوانِ جنت اِنکے بچوں کے درزی بن کے آتے رہے اور جب گھر سے باہر تشریف لے گئیں تو میدانِ مباہلہ میں اِنہیں آتا دیکھ کر عیسائی پادریوں نے اپنی دستاریں اُتار پھینکی اور اپنے چہرے خاک پہ رکھ دیے، یہ تعظیمِ جنابِ بتولِ کُبریٰ تھی کہ عیسائی مباہلہ سے ڈر گئے اور کہا: "آج محمد ﷺ جِس ہستی کو اپنا وکیل بنا کر لے آئے ہیں، اگر اِنہوں نے اِس پہاڑ کو بھی حکم دیا تو وہ اپنی جگہ چھوڑ دے گا اور اگر اِس بی بی نے بددعا کردی تو قیامت تک کیلیے نسلِ نصاریٰ ختم ہوجائے گی۔ شبِ معراج، سفرِ معراج کا عُنوان ہی جنابِ زہرا سلام اللہ علیہا تھیں، یہ بی بی وہ مَلَکوتی تُحفہ تھیں جِن کو لینے کیلئے پیغمبر کو خود عرش تک جانا پڑا، گویا کہ معراج مُقدمہ ہے، آمدِ جنابِ سیدہ سلام اللہ علیہا کا۔
عام طور پر لوگ یہ سمجھتے ہیں کہ یہ شہزادی ہمیں بس شرم و حیا کا بے مثال درس دیتی ہیں اور اِسکے علاوہ آپ نے اپنی زندگی میں کوئی بڑا کام سر انجام نہیں دیا لیکن شاید زمانہ جنابِ زہرا سلام اللہ علیہا کی حماسی روح سے بےخبر ہے۔ جہاں پر آپ سلام اللہ علیہا سے بہتر ہمیں کوئی حجابُ و حیا نہیں سمجھا سکتا وہاں پر ہی آپ سلام اللہ علیہا سے زیادہ کوئی ہمیں شجاعت و دلیری بھی نہیں بتا سکتا۔ اگر نبی ﷺ کے بعد کوئی ہستی زمینُ آسمان میں مقربُ و بزرگ ترین ہیں اور نبی کی اصل وارث ہیں تو وہ زمانے کا کوئی اور فرد نہیں بلکہ تنہا ویکتا جنابِ سیدہ زہرا سلام اللہ علیہا ہیں۔
یہ بی بی علمِ نبوت کی وارثہ ہے، صفاتِ محمد ﷺ کا مجسم پیکر ہے، پیغمبرِ اعظم کی خوشبو ہے، شجرۂِ نبوت کی تنہا وارث ہے، حِلمِ محمد ﷺ کا کامل مظہر ہے۔ خُدا نے ایسی کوئی بلندی اِس جہاں میں خلق ہی نہیں کی جو جنابِ سیدہ کو عطا نہ کی ہو۔ پورے جہاں میں دہلیزِ جنابِ زہرا جیسی اور کوئی دہلیز نہیں ہے کہ جہاں پر جاکر جبرائیل کی حد ختم ہوجاتی اور وہ اندر آنے کیلئے اجازت طلب کرتے۔ نبی ﷺ اپنی زندگی کے آخری ایام میں تقریباً چھ ماہ تک مسلسل دہلیزِ زہرا پر رک کرآیتِ تطہیر تلاوت فرماتے اور صحابہ کرامؓ کو بتاتے کہ یہ گھر نبوت کا گھر ہے اور اس گھر میں اہلبیتِ نبوت رہتے ہیں، یہ گھر عصمت کا گھر ہے، یہ گھر، وحی کا مرکز ہے، یہ میری بیٹی فاطمہؑ کا گھر ہے، تمہیں توحید اور نبوت کے اَسرار اِسی گھر سے ملیں گے۔
لیکن یہ کوئی نہیں سمجھ سکا کہ بعد اَز شہادتِ پیغمبرِ اسلام ﷺ، اِسی بیٹی پر ایسے کونسے مصائب ٹوٹ پڑے کہ اٹھارہ سال کی عمر، عین شباب کے عالم میں، اُن کے بال سفید ہوگئے، کمر جُھک گئی، پسلیاں ٹوٹ گئی، اُنگلیاں زخمی ہوگئی، بازوؤں پہ وَرَم آگیا اور وہ دائیں ہاتھ سے تسبیح نہیں پڑھ سکتی تھیں۔ کیا یہ حالت پَدر کی جدائی کے سبب بن گئی یا زمانے کی گردشوں اور بے وفائی کے درد نے جگرِ زہرا سوختہ و چھلنی چھلنی کردیا تھا؟
ایسی کونسی سخت وجہ تھی کہ رسولِ کریم ﷺ کی دُختر بابا کے بعد پچھتر یا پچانوے دن بمُشکِل زندہ رہی اور پچھتر دن تک لگاتار جبرائیل نازل ہو کر شہزادی کو تسلیاں دیتے رہے؟ کیوں بھرے مدینے میں زہرا کو کوئی یتیمی کا پُرسہ دینے نہیں آتا تھا کہ بی بی کو باپ کو رونے کیلئے شہر سے باہر جانا پڑتا تھا؟ کیوں جنابِ زہراؑ کو سات چادروں کا کفن مِلا اور چالیس قبریں بنی؟ کیوں زہرا کی قبر اپنے باب کی قبر کے ساتھ نہیں بنی؟
آخر مسلمان کونسے ایسے ضروری کام میں مصروف تھے کہ پیغمبر کا جنازہ تین دِن تک ادا نہ ہُوا اور جب جنازہ اور تدفین کی گئی تو صرف سات مسلمان شریک ہوئے؟ کیوں نبی وقتِ آخر کاغذ اور قلم مانگتے رہے اور نہیں مِلی؟ چلئیے اِن سوالوں کو چھوڑ دیتے ہیں کہ یہ سب تو چودہ سو سال پہلے کی باتیں ہیں نا، جب نہ میں تھی اور نہ آپ میں سے کوئی موجود تھا، آج کی بات کرتے ہیں، بھرے مدینے میں سعودی عیاش پسندوں کے محلوں پہ روشنیاں ہیں، مگر زہرا کی قبر کا نشان کہاں ہے؟ آخر کونسی ایسی مجبوری تھی کہ اُمت نے زہراؑ کی قبر پہ ہَل چلادیے؟
اِن سوالوں کے جواب شیعہ یا سُنی بن کر نہیں بلکہ صرف محمدِ مصطفیٰ ﷺ کا اُمتی بن کر تلاش کریں کیونکہ فاطمہؑ کسی شیعہ یا سنی کی نہیں بلکہ آپکے نبی کی بیٹی تھیں۔ یہ سوال اور اِن کے جواب لڑنے جھگڑنے والے نہیں بلکہ ضمیر جھنجھوڑنے والے ہیں، کسی مولانا یا ذاکر سے نہ پوچھیں بلکہ خود ڈھونڈیں کیونکہ آپ مُسلمان ہیں اور ایک مسلمان صاحبِ بصیرت و حکمت، تفرقہ پرستی سے پاک ہوتا ہے۔ آپ سب ہی وہ لوگ ہیں کہ جِن کیلئے نبیِ محترم ہر نبی کی اُمت پر فخر کرتے ہیں اور قرآن آپ، اہلِ ایمان کی صفات کا قصیدہ پڑھ رہا ہے۔ کیونکہ ہماری کوئی پہچان نہہں سوائے اُمتِ محمدی ﷺ کے!
مُحسن یہ چاند اِسلیے ہم کوعزیز ہے
کیونکہ یہ مہربان ہے بِنتِ رسول پر!
غُربت کہوں کہ اجرِ رسالت کہوں اِسے
تنہا یہی چراغ ہیں قبرِ بتول پر!

