Hamasa e Zainabi
حماسۂِ زینبی
جلے ہوئے دامن، پیاس کی شدت سے ہڈیوں سے الگ ہوتا گوشت، پسِ گردن رسیوں میں بندھے ہاتھ، پیروں میں بیڑیاں، شانوں سے جکڑے زنجیر، خون آلود کان، رُخساروں پہ طمانچوں کے داغ، پُشت پے تازیانوں کے نیل، کُھلے ہوئے برہنہ سر، سروں میں خاکِ کربلا، چہروں پہ خون آلود بالوں کا پردہ، خاردار کانٹوں اور تپتے صحراؤں پہ چلتا ہوا پنجتن پاک کا پاک سفینہ، بدمعاشوں کی بِھیڑ، بیٹوں کے قاتلوں کا مجمع، بِے غیرتوں کا رَش اور کمینوں کے اِس ہجوم میں ایک شرابی سے کلام کرتی، "محمدِ مصطفیٰ ﷺ کی نواسی، سیدۃ النِسأِ العالمینؑ کی دُختر، علیُ المرتضیٰؑ کی شیر دِل و جَری بیٹی، بتولِ کربلاؑ، جو رسیوں میں جکڑے شیر کی مانند تلواروں اور نیزوں کے سمندر میں بےپرواہ کھڑی کہہ رہی تھی، "ھیھات من الذلتہ"۔
"خدا کی قسم! ہم اہلبیتِ پیمبر، ذِلت سے دور ہیں"۔
محمد مصطفیٰ ﷺ کی نواسی اگر منزلت میں علیؑ کے بیٹوں سے زیادہ نہیں ہے تو انبیاء کی دستار و غیرتِ الہٰیہ سے کم بھی نہیں ہے۔ حسین ابنِ علیؑ کا مرد ہو کر مردوں کے ظُلم سِہہ کر حماسہ خلق کرنا آسان تھا جبکہ بنتِ پیغمبر کا شرابی کے دربار میں کئی لاکھ بے دینوں کے سامنے بغیر چادر کے خُطبے دینا تاریخِ بشریت کو دِہلا دینے والا حماسہ ہے۔
یکم صفر، 61 ہجری، تاریخِ اسلام کا وہ سیاہ ترین دن ہے جب محمدؑ و علیؑ کی بیٹیوں کو شام کے بازاروں میں بے مقنع و چادر اسیر بنا کر پِھرایا گیا، لاکھوں کے مجمعے نے مِل کر آلِ محمد ﷺ پہ سَنگ برسائے، کسی نے گرم کھولتا پانی پھینکا تو کسی نے گرم انگارے برسائے، کہِیں اتنا ہجوم ہوا کہ مسلمانوں کے دھکوں کے سبب اَبناتِ پیمبر کو کُہنیوں کے بَل بازار عبور کرنے پڑے یہاں تک کے شام کی ہر دیوار آلِ محمد ﷺ کے خون سے رنگین ہوگئی۔
تاریخِ اسلامی کے مطابق شام کے بازاروں سے لیکر دربارِ یزید تک جاتے جاتے آلِ نبی کو کئی روز لَگ گئے، سورج نِکلتا اور ڈھل جاتا لیکن لوگ قیدیوں کے استقبال سے نہیں تھکتے تھے۔
اب یہ اندازہ لگانا کہ دربارِ یزید تک جاتے جاتے قافلۂِ حسینیؑ کے بچوں اور مستورات کی کیا حالت ہوگئی ہوگی، بعید اَز بیاں ہے۔ لیکن اِس قدر ظاہری بےکسی اور مجبوریوں نے بھی آلِ نبی کے حوصلوں کو پَست نہیں کیا بلکہ کربلا سے لیکر شام تک چھتیس بازاروں کے ہر موڑ پر سادات نے ایسے خطبے دیے کہ شہروں کے شہر باغی ہونے لگے اور یزید کے دلی دشمن ہو گئے۔ یہاں تک کہ اب خود یزید کے سامنے، یزید کے دربار میں کھڑے ہوکر، فوجوں کے سمندر کے قلب میں، رسیوں میں پابند ہونے کے باوجود بِنتِ علیؑ نے اپنے خطبوں سے یزید کمینے کو ایسے برباد کر دیا کہ وہ یزید جو پہلے یہ کہہ رہا تھا کہ، حسینؑ تو باغی تھا، میں نے تو اولادِ علیؑ سے بدر و احد کے بدلے لیے ہیں، وہ یزید جو شراب کے نشے میں مست ناچ رہا تھا، اب جنابِ زینب سلام اللٰ٘ہ علیہا کے خطبوں کے بعد ایسا لرزا کہ، کہنے لگا، "حسینؑ کا قتل میں نے نہیں کیا بلکہ یہ سب تو اِبنِ زیاد کا کِیا دھرا ہے"۔
اور جب اُس نے بیبی سے پوچھا کہ، کربلا میں آپ نے کیا دیکھا؟ تو شہزادی زینبؑ، جو بھائیوں کے بےسر اور بےگوروکفن لاشے کربلا کے تپتے دشت میں چھوڑ آئیں تھیں، بس اِتنا فرمایا: "اے کنیز زادے اور اے شہیدوں کا جگر چبانے والی کے بیٹے! واللہ (اللہ کی قسم) ہم نے کربلا میں خوبصورتی کے علاوہ کُچھ بھی نہیں دیکھا" کِس قدر متحیر اور متعجب کردینے والا جواب ہے، دُشمنوں کی بھِیڑ میں، دشمن کے دربار میں، نو بھائیوں اور بھتیجوں کے قاتل کے سامنے پورا کُنبہ ذبح کروا کر، دُشمن کی بِیڑیاں اور زنجیروں میں جکڑے جانے کے باوجود، اسیر ہوکر پھر بھی اِس بیبی نے کربلا میں خوبصورتی کو پایا؟
تو عزیزانِ گرامی! یہاں سے اندازہ لگایا جا سکتا ہے کہ حماسۂِ زینبی کے بغیر مقصدِ کربلا خاک ہے، دراصل "حماسۂِ زینبی، حماسۂِ حسینی کی تکمیل کا نام ہے۔ اتنی مجبوریوں اور مصائب میں گھِرے ہونے کے باوجود جب بیبی کے پاس ہزار بہانے تھے کہ وہ ظالم کو نہ للکاریں، علیؑ کی شیر دِل بیٹی نے عباسِؑ جری بن کر یزید کو یوں برباد کیا کہ قیامت تک لفظِ یزید گالی بن گیا۔ اگر یہ کہا جائے کہ کُل انبیاء علیہم السلام کی محنت اور کربلا کے خون کو کسی نے بقا دی ہے، وہ ہستی زینب بنت علیؑ ہیں، تو ہرگز غلط نہ ہوگا۔
ایسا لگتا ہے کہ گویا اِس بیبی کا یہ حماسہ فقط ہمارے لیے ہی خلق ہوا ہے۔ ہم لوگ، پاکستانی قوم، سُنی و شیعہ مومنین، اہلحدیث و اہلِ دیوبند حضرات! کئی زنجیروں میں جکڑے ہیں جو لوہے اور فولاد کے زنجیروں سے کئی زیادہ کارگر ہیں۔ کوئی فرقہ واریت کی آگ میں جل رہا ہے تو کوئی صوبائی تعصب کی زنجیر میں قید ہے، کسی کو شیعہ کافر کہہ کر ذبح کیا جارہا ہے تو کوئی کہتا ہے سُنی ناصبی ہے۔ سوال تو یہ ہے کہ اگر نبی کا کُنبہ اِن سخت مصائب میں مبتلا ہو کر بھی کہتا ہے، ذلت ہم سے دور ہے تو پھر اِسی نبی کو ماننے والے کیوں اِتنے دلیر اور شجاع نہیں ہیں کہ، شیر بن کر پُکاریں، "ھیھات من الذلتہ"، کیا ہم لوگ آلِ محمد ﷺ کی سیرت سے لا علم ہیں یا پھر یہ کہ ہم جنابِ زینب سلام اللٰ٘ہ علیہا سے اجنبی ہیں، کیا ہمارا حسینؑ ابنِ علیؑ سے کوئی رشتہ نہیں ہے؟ کیا ہم سے بروزِ محشر پیغمبر ﷺ نہیں پوچھیں گے کہ، ہمارے لیے تُم نے کیا کِیا؟ کیا جواب میں ہم یہ بول کے چھوٹ جائیں گے کہ، "ہم نے آپ کی اولاد کیلئے مجالس کروائیں اور شبینے پڑھوائے، یا پھر یہ کہ ہم نے آپکو فِرقوں میں بانٹ دیا اور آپکے حق میں سوائے ربیع الاول کے جلوسوں کے کچھ نہ کر سکے"۔
عزیزانِ گرامی ذرا سوچئے! اگر زینبؑ بنتِ علیؑ شام کے خونی دربار میں بول سکتی ہے تو کیا ہم اِتنے گئے گُزرے ہیں کہ وقت کے یزید کا نام بھی نہیں لے سکتے؟ کیا ہمیں لاشوں پے سیاست اور مذہبی تعاصب زیب دیتے ہیں؟ کیا ہم زینبؑ بنتِ علیؑ سے بھی زیادہ مظلوم اور اسیر ہیں کہ فلسطینیوں کی لاشوں پے بولنے کی بجائے آپس میں لڑ رہے ہیں، سعودیہ کا حق ہے حملہ کرے بلکہ نہیں ایران کا کام ہے اِسرائیل کو تباہ کرے۔۔ یاد رکھیئے! ہم نے سعودی و ایرانی حکومتوں کا جواب نہیں دینا بلکہ خدا کو یہ بتانا ہے کہ ہم نے خود کیا کِیا ہے۔
اگر ہم خود اپنے اپنے ذمے دار ہیں تو پھر یہ بھی سوچیئے گا کہ پارا چنار کے ذبح جوانوں کا خون بھی کہی ہماری چُپ اور فرقہ واریت کے سَر تو نہیں! کیونکہ سوچنا تو بنتا ہے، کیونکہ تُم حسینؑ ابنِ علیؑ کے سپاہی ہو! تم زینبؑ بنتِ علیؑ کے کاروان کا حصہ ہو! تُم محمد ﷺ کیلئے باعث فخر ہو!
کیونکہ تُم کچھ بھی نہیں بس، مسلمان ہو!
حشر تلک اب نہ سر اُٹھا کے، چل سکے گا کوئی، یزید زادہ
غرورِ شاہی کو اِس طرح سے، مِٹا گئی ہے علی کی بیٹی!

