Friday, 05 December 2025
  1.  Home
  2. Blog
  3. Aleen Sherazi
  4. Hamasa e Karbala

Hamasa e Karbala

حماسۂِ کربلا

تلملاتا سورج، دشتِ بیاباں، خون کی بارش، فوجوں کے ساتھ فوجیں، تلواروں کے ساتھ تلواریں، نیزوں میں نیزے، تیروں میں تیر، سِپاہ کا رَش، مارو مارو کی صدائیں، لُوٹو لُوٹو کی پکار، قومِ اشقیا، گرم لُو، تپتی ریت، سہہ روز کا پیاسا یثرب کا پردیسی کارواں، تِشنہ دہن بچے، العطش العطش کی صدائیں، مقتل میں لاشوں کا ڈھیر، لاشوں کے اِس ہجوم کے درمیاں نینوا کے ٹیلوں میں قبضہ تلوار پے سر رکھ کے بیٹھا کوئی شدت کا زخمی پیاسا مسافر!

ناجانے یہ پردیسی قبضۂِ تلوار پے ہاتھ رکھ کے کونسی فریاد بلند کر رہا تھا!

وہ کہہ رہا تھا: "ھَل٘ مِن٘ النَاصر یَنصُرنَا"

"کوئی ہے جو میری نصرت کرے"۔ عزیزانِ گرامی یہ زخمی، پردیسی، پیاسا مسافر کوئی اور نہیں سرکارِ دوعالم ﷺ کا لختِ جگر، سیدہ فاطمتہ الزہرا سلام اللہ علیہا کا نورِ نظر، علی ابنِ ابی طالبؑ کا پِسر، سارے جہان کے مسلمانوں کا آقا، جوانانِ جنت کا سردار حسین اِبنِ علی تھا۔

جو بے وفا مسلمانوں کے ہجوم میں بیٹھا مدد کے استغاثے بلند کر رہا تھا۔ سوال یہ اُٹھتا ہے کہ سید المرسلین کے بیٹے کیلئے ایسی کونسی مشکل آن پڑی تھی کے وہ اپنے دستِ مبارک میں اللہ کے حکم سے، کائنات کے معجزے رکھتے ہوئے، صدائے نصرت بلند کر رہے تھے؟

جبکہ اُن کے پاس باوفا و جری اہلبیت و اصحاب موجود تھے، جنہیں اگر حضرت جُنبشِ انگشت سے بھی اشارہ کرتے تو وہ شہسوار ایسی خونریز جنگ کرتے کہ کربلا کی جنگ کا نقشہ بدل جاتا! اب اگر کوئی صاحبِ فکر انسان تاریخِ بشریت کے اِس بے نظیر و بے مثال واقعے کی تہہ میں غوطہ زَن ہو تو اُسے معلوم ہوگا کہ کربلا کوئی سانحہ یا محض اتفاقاً رونما ہونے والا حادثہ نہیں ہے بلکہ شہید مطہری کے مطابق کربلا ایک "حماسہ" ہے جو اپنے اندر دانشوری اور حکمت کے کئی جہان سمیٹے ہوئے ہے۔ واقعۂِ کربلا میں لشکرِ سید الشہداء میں موجود ہر فرد، خواہ نوے سال کا حبیب ابنِ مظاہر ہو یا ششماہا بچہ علی اصغر، پچپن سالہ زینب بنتِ علی ہوں یا چار سالہ سکینہ بنت الحسین، ہر ایک اپنے اندر جرأت و وفا کے ملکوتی گوہر لیے ہوئے ہے۔

سید الشہداء کے برادر حضرت ابالفضل العباس، جو سخت ترین مصائب میں سبطِ پیمبر کیلئے گویا شجرِ سایہ دار تھے، جنہوں نے گھوڑا دریا میں ڈالنے کے بعد کئی روز کی پیاس کے باوجود یہ سوچ کے پانی نہ پیا کے سادات کے بچے پیاسے ہیں، جنکی لاش پے حضرت نے فرمایا: "اے عباس تیرے جانے سے تیرے بھائی کی کمر ٹوٹ گئی"، اپنے اندر وفا داری و جوانمردی کا حماسہ لیے ہوئے تھے۔ اِسی طرح، تیرہ سالہ حضرت قاسم ابنَ الحسنؑ کے وہ جملے کہ "موت میرے نزدیک شہد سے زیادہ شیریں ہے"۔ اس بات کا ثبوت دیتے ہیں کہ کربلا کوئی حادثہ نہیں بلکہ معرکہء کربلا میں اھلبیتِ نبوت پوری تیاری کے ساتھ آئے تھے۔

اسی طرح حضرت علی اکبرؑ کے وہ ملکوتی الفاظ کہ "بابا جان! جب ہم حق پر ہیں تو پھر ہمیں کیا فکرکے موت ہم پے آ پڑے یا ہم اُس پے"، روزِ روشن کی طرح بتاتے ہیں کہ کربوبلا والے جانتے تھے کہ تاریخ بشریت کا کونسا اہم ترین معرکہ ذاتِ کِردگار اُن سے لینے جارہی ہے۔ تو پھر یہاں پر یہ شُبہ تو بلکل ختم ہوجاتا ہے کہ کربلا کوئی اچانک ہونے والا واقعہ تھا یا پھر یہ کہ، یہ طاقت کی جنگ تھی بلکہ واضح ہوجاتا ہے کہ "کربلا" بہادری، جوانمردی، وفا، حیا۔

جرٔات و شجاعت کا انسانیت بیدار کرکے رکھ دینے والا حماسہ ہے جس کا ہر پہلو ہماری آج کی موجودہ زندگی سے تعلق رکھتا ہے۔

ذرا کان لگا کے سُنیں تو سہی، کیا فلسطین کے نہتے مظلوم مساجد میں جاکر چیخ چیخ کر یہ نہیں پکار رہے، "ھَل مِن الناسِ یَنصُرنَا" کوئی ہے جو ہم بیکسوں کی مدد کرے، یہ الفاظ سنتے ہی روح کانپ اُٹھتی ہے کہ ہائے یہ تو وہ صدائے استغاثہ ہے جو چودہ سو سال پہلے شاہِ شہیداں نے بلند کیا تھا! تو بلآخر یہ پتا چلتا ہے کہ وہ مدد جو فرزند رسول اُس وقت مانگ رہے تھے اُس کا یہ مطلب ہے کہ " کیا کوئی ہے جو ظالم کے خلاف حسین ابنِ حیدر کا ساتھ دے"۔

چودہ سو سال سے یہ صدا ہر روز فضا میں گونج رہی ہے اور مجھے اور آپ سبکو ظالم کے خلاف برسرِ پیکار ہونے پر ابھار رہی ہے، مگر ہم نے کیا کیا؟ کوئی شاہِ شہیداں کے نام کی نذر دلانے لگ گیا تو کوئی صرف گریہ و ماتم کرنے پہ اکتفا کرنے لگا، کسی نے حسین کی صدا کے جواب میں دیگیں پکانا شروع کر دی تو کوئی بدعت کافتویٰ دینے لگانا، کسی نے شبینہ کروا کے سیدالشہدا کو خراج عقیدت پیش کیا تو کوئی گلی کوچوں میں جلوس نکالنے لگا، کوئی بولا حسین صرف شیعوں کا پیشوا ہے تو کسی نے کہا کہ اہلسنت اِسے مانتے ہیں، گویا ہم نے اپنے اپنے اندازِ خراجِ عقیدت میں مقصد کربلا ہی فوت کردیا۔

فلسطین میں کوئی باپ اپنے ذبح بچے کو ہاتھوں پے بلند کیے پکار رہا یے کہ "کوئی ہے؟"، حسین کے چاہنے والوں کو تو چاہئیے تھا کہ کہتے، "لبیک، ہم حسینی ہیں، ہم حاضر ہیں"۔ مگر ہم اب تک ہاتھ باندھ کر اور کھول کر نماز پڑھنے پے لڑ رہے ہیں جب کہ دشمن ہمارے ہاتھ کاٹنے پہ لگا ہے۔

میرے آقا کا روزِ عاشورہ وہ کلام کے "ھیھات من الذلتہ" "خدا کی قسم! ہم ذلت سے دور ہیں" بتاتا ہے کہ محمد ﷺ و علی ابن ابی طالبؑ کے چاہنے والے روزِ محشر تک ذلت سے دور ہیں۔

جیسا کہ حضرت کے صحابی زہیر ابنِ قین نے وقتِ شہادت فرمایا تھا کہ: "میں حسین کے ساتھ شہید ہونے کو، شمر کے ساتھ سو سال زندہ رہنے سے بہتر سمجھتا ہوں"۔ گویا ہمیں بھی وہبِ کلبی کی طرح جگر ہاتھوں پے رکھ کر بارگاہِ حضرت میں جانا ہوگا کیونکہ دستورِ عشق یہ کہتا ہے کہ " اے آقا! ہم اپنی جانیں، پاکیزہ مال اور اولاد قربان کرنے کے لیے آپ کے سامنے تیار کھڑے ہیں، ہم لینے کچھ نہیں آئے بلکہ اپنا سب کچھ آپ پے وارنے آئے ہیں کیونکہ سلطنتِ عشق میں مانگنا عیب ہے۔

مسلک کے اِس فساد نے محدود کردیا
ورنہ حسین واجب تھے اُمت رسول پر!

عزیزانِ گرامی بیدار ہو کر سنیے، آج بھی عاشورہ کی وہ صدا بلند ہورہی ہے، فوجوں کی بھِیڑ میں تنہا گِھرا، پیاسا، زخمی اور پردیسی فرزندِ رسول آپکو پُکار رہا ہے:

"کوئی ہے جو راہِ خدا میں اپنے نبی کے پِسر کی مدد کرے۔۔ کوئی ہے؟"

کوئی ہے جو زخمی حسین کی فریاد کا جواب دے؟ سوچیئے، جہاں حسین کے شیدائیوں کیلئے ظلم کے خلاف چپ رہنا حرام ہے، آپ اور میں کہاں کھڑے ہیں؟ کیا سیدالشہدأ کو ہماری زندگیوں اور قلوب و نفوس کی جگہ بس، نوحے و ماتم، شبینہ و مجلس چاہیے؟ کیا رسول اللہ کا مقدس خون صرف اِس لیے تپتے دشتِ بلا میں بہایا گیا تاکہ حلیم و چاول کی دیگیں دی جاسکیں؟ کیا ہمارے پاس اسکے علاوہ کچھ ہے، حسین ابنِ علی کو دینے کے لیے؟

"ھیھات من الذلتہ"

خدا کی قسم! محمد اور علی کے شیدائی زلت سے دور ہیں، اوریوسفِ کربلا کے ہر چاہنے والے کیلیے جبر کیخلاف خاموشی، حرام ہے"۔

Check Also

Naye Meesaq Ki Zaroorat Hai

By Syed Mehdi Bukhari