Sunday, 06 October 2024
  1.  Home
  2. Blog
  3. Abid Mir
  4. Naseerabad Ka Almia

Naseerabad Ka Almia

نصیرآباد کا المیہ

کیا غضب ہے کہ سو سال پہلے بلوچستان کی اولین وطن پرست اکیڈمک موومنٹ جس علاقے سے شروع ہوئی تھی، وہ آج شدید ترین جاگیرداری اور نیم قبائلیت میں جکڑا ہوا اور شدید "غیرسیاسی" ہو چکا ہے۔ کولپور سے شروع ہو کر جعفرآباد تک کی طویل پٹی کو نصیرآباد ڈویژن کہا جاتا ہے، جس میں مچ، بولان، کچھی سمیت جھل مگسی، جعفرآباد و صحبت پور کے تاریخی علاقے آتے ہیں۔ پروفیسر نواز سومرو صاحب کے بقول ویسے تو اس کے لیے "کچھی" کا تاریخی نام زیادہ بہتر ہے، چلیں نصیر آباد بھی شکر ہے نوری نصیر خان کے نام پر ہے، ہضم ہو جاتا ہے، کسی جاگیردار نصیر خان جمالی یا کھوسہ کے نام پر نہیں، ورنہ ہماری زبان پر ہی نہ آتا۔

اس نصیرآباد میں اب عرصے سے کچھ تعلیم دوست احباب کو وہاں تعلیم پھیلانے کا جنون طاری ہوا ہے۔ یہ وہاں مختلف ایونٹ کرتے ہیں، تعلیمی اداروں میں سرگرمیاں کرتے ہیں، طلبا کو گھیرگھار کر سمجھاتے ہیں، یونیورسٹیوں میں بھجواتے ہیں، الغرض تعلیم پرستی کی ایک نئی لہر پیدا کرنے کی مہم میں جُتے ہوئے ہیں۔

گرمیوں میں وہاں کی اکثریت کوئٹہ میں ہوتی ہے۔ اس لیے ان دوستوں نے کل کوئٹہ پریس کلب میں طلبا کی رہنمائی کے لیے ایک سیمینار ٹائپ تقریب رکھی۔ طلبا کی خاصی تعداد شامل ہوئی۔ مگر افسوس یہ ہوا کہ دوست احباب اب تک روایتی طریقہ کار سے نہیں نکل سکے۔ وہی پرانا اسٹائل کہ چار لوگ تقریر کریں، باقی بیٹھ کر تالیاں بجائیں اور چلے جائیں۔ نواز سومرو صاحب نے اس ضرورت کو محسوس کیا اور طلبا کو سوال کرنے کا، بولنے کا موقع دیا۔ مگر وہی وقت کی قلت والے روایتی سبب کے باعث طلبا کے سوالات کے تشفی بخش جوابات نہیں دیئے جا سکے۔

مجھ سے دوست مشورہ کرتے تو میں انہیں یہی کہتا کہ اب سیمینار بھی اس روایتی طریقے کے بجائے مکالماتی طرز پر ہوتے ہیں۔ بہتر ہوتا کہ نظامت کرنے والا تینوں مقررین سے سوالات کرتا۔ پندرہ بیس منٹ ایک مقرر بولتا اور پھر کم از کم آدھا گھنٹہ سوال جواب ہوتے تاکہ جن کے لیے آپ نے ایونٹ منعقد کیا ہے، انہیں بھی سنیں، ان کی بھی سنیں۔

مجھ نکتہ چیں کو اول تو اسٹیج پہ لگائے گئے بینر میں ہی زبان کی غلطی نے متوجہ کیا اور حیرت ہوئی کہ ایونٹ آرگنائزر کی اکثریت اساتذہ کی ہے، ان سب سے یہ غلطی کیسے چوُک گئی۔ دوم، ہمارے ان دوستوں نے ادارے کا نام رکھا ہے: نصیرآباد ایجوکیشنل کونسل، لیکن ان کی تمام تر سرگرمیوں کا مرکزی محور ہے: نصیرآباد میں یونیورسٹی کا قیام، حتیٰ کہ آدھی سے زیادہ تقریب اسی کے گرد رہی۔ جبکہ موضوع تھا، نصیرآباد کے تعلیمی مسائل۔ لیکن ہمارے دوستوں نے یونیورسٹی کو کچھ ایسے طاری کر لیا ہے کہ نصیرآباد کے تمام مسائل کا حل یونیورسٹی کے قیام میں ہے۔ یہی کرنا ہے تو پھر ادارے کا نام: نصیرآباد یونیورسٹی کونسل ہی کر لیں۔

وگرنہ عالم یہ ہے کہ بنیادی تعلیمی ڈھانچہ تباہ ہوا پڑا ہے۔ مطلوبہ تعداد میں سکول نہیں، جہاں سکول ہیں وہاں اساتذہ نہیں، جہاں اساتذہ ہیں وہاں سہولیات نہیں، سہولیات ہیں تو طلبا نہیں۔ چار سال سے یونیورسٹی کیمپس کام کر رہا ہے، وہاں اب تک اسٹاف مہیا نہیں کیا جا سکا، یونیورسٹی کے لیے افرادی قوت کہاں سے لائیں گے؟ مکران ڈویژن میں تین یونیورسٹیاں بن چکیں، سوائے تربت یونیورسٹی کے باقیوں کا حال دیکھ لیں، کالجز سے بھی گئی گزری حالت ہے۔ یہ صوبے پر بوجھ ہیں مگر سیاسی مصلحتوں کے تحت ہم اس پہ بات نہیں کرتے۔

جب معاملہ اجتماعی مفاد کا ہو تو اختلافی بات کہنے میں جھجھکنا نہیں چاہیے۔ نصیرآباد کے علم دوست احباب کو سمجھنا ہوگا کہ علاقے کا بنیادی مسئلہ، بنیادی تعلیم کا ہے، اعلیٰ تعلیم کا نہیں۔ بنیاد کو ٹھیک کیے بنا آپ اونچی عمارت تعمیر نہیں کر سکتے۔ ایجوکیشنل کونسل کو اپنا پورا زور بنیادی تعلیمی ڈھانچے کی بہتری پر لگانا چاہیے۔ کم از کم اگلے دس برس تو یہی جدوجہد رہنی چاہیے۔ یہ بہتر ہوگیا تو یونیورسٹی کی گنجائش بھی نکل ہی آئے گی۔

Check Also

Hamari Redline Kon?

By Prof. Riffat Mazhar