Friday, 05 December 2025
  1.  Home
  2. Blog
  3. Amirjan Haqqani
  4. Insaf Ki Sawari

Insaf Ki Sawari

انصاف کی سواری

یہ 14 اپریل 2025 کی خنک صبح تھی۔ ہوا میں ہلکی سی نمی، پہاڑوں پر برف کی جھلک اور دل میں ایک مستقل سوال۔ مجھے نو بجے چلاس ڈگری کالج میں لیکچر دینے کے لیے پہنچنا تھا۔ معمول کے مطابق، صبح سویرے اٹھا، ایک کپ چائے پی اور اپنے سفری بیگ کے ساتھ قراقرم ہائے وے پر، پڈی بنگلہ تھانے کے پاس کھڑا ہوگیا۔ امید تھی کہ کوئی پبلک ٹرانسپورٹ یا رینٹ کار وقت پر آ جائے گی۔ مگر یہ امید بھی میری طرح راہ میں کھڑی تھی اور وقفہ کافی لمبا ہوگیا جو ہمیشہ سے ہوتا آرہا تھا۔

یہ پہلا موقع نہیں تھا۔ پچھلے ایک سال میں یہ بیسویں بار تھا کہ مجھے اس سڑک پر یوں کھڑا ہونا پڑا۔ میں وقت کی پابندی کے ساتھ، لیکچر کی تیاری کے ساتھ، مگر بغیر کسی سرکاری یا ذاتی سواری کے کھڑا تھا۔

اسی اثنا میں ایک پولیس موبائل چھو چھو کرتی آئی اور اس کے پیچھے ایک قیمتی گاڑی، شاید چیف کورٹ کے کسی جسٹس صاحب کی ہو، جو چلاس کی ہی راہ پر رواں تھی۔ دل چاہا ہاتھ ہلا دوں، اشارہ کر دوں، شاید کچھ ترس کھا لیں، مگر پھر خوف آیا، کہیں توہین عدالت نہ ہو جائے۔ یوں وہ گاڑی، انصاف کا بوجھ اٹھائے، ہوا میں اڑتی چلی گئی۔

میری آنکھوں نے اس گاڑی کو دور تلک دیکھا۔ جیسے معاشرتی عدم مساوات کی تصویر آنکھوں میں نقش ہوگئی ہو۔ اس کے بعد ایک کے بعد ایک سرکاری نمبر پلیٹ والی مہنگی گاڑیاں گزرتی گئیں، ان میں بیٹھے چھوٹے بڑے افیسران گلگت سے چلاس اور استور جارہے تھے، کچھ نے ہاتھ کے اشارے سے سلام بھی کیا، شاید پہچان گئے۔ ان کے چہرے مسکراتے تھے، شاید گاڑی کی آرام دہ سیٹیں ہی ان کے لہجے میں نرمی اور آنکھوں میں سکون پیدا کرتی ہیں۔

میں سوچتا رہا، یہ وہی لوگ ہیں جو میرے جیسے استادوں کو ترقی کے لیکچرز، تربیت کے سیشنز اور مثالی سروس کی تلقین کرتے ہیں اور پالیسیاں بناتے ہیں اور بہتر ایجوکیشن سسٹم کا درس دیتے ہیں۔ مگر خود اپنے لیے وہ مراعات چن لیتے ہیں جو خوابوں میں بھی ہماری سوچ میں نہیں آتیں۔

میں انہی سوچوں میں گُم سم کھڑا تھا، پھر ایک اور کار آئی، سیاہ، سنجیدہ اور شفاف شیشوں والی مہنگی کار اور پھر وہ بھی گزر گئی۔ نمبر پلیٹ پر نظر پڑی تو نمبر عدالت کا تھا۔ ایک اور جج، ایک اور معزز، ایک اور وہ شخص جس سے ہم انصاف کی امید رکھتے ہیں۔

میں وہیں کھڑا سوچتا رہا، سوچتا رہا اور سوچتا گیا کہ

انصاف کیا صرف عدالتی فیصلے دینے کا نام ہے؟

کیا یہ جج صاحبان اور افسران واقعی وقت پر سائلین کی بات سنتے ہیں؟

کیا انہیں احساس ہے کہ میری طرح سینکڑوں اساتذہ، جن پر قوموں کی بنیادیں رکھی جاتی ہیں، وہ خود اپنی جیب سے کرایہ دے کر سفر کرتے ہیں؟

وہ بھی اس دور میں جب تنخواہ بمشکل بچوں کی فیس، راشن اور دیگر معمولی اخراجات کو پورا کر پاتی ہیں اور جب انہیں گھر کے قریبی درسگاہوں سے اٹھا کر دور دراز علاقوں میں بھیجا جاتا ہے اور بے سروسامان چھوڑ دیا جاتا ہے۔

کیا یہ انصاف ہے کہ انصاف اور انتظام کے محافظ آرام دہ گاڑیوں میں ہوں اور علم کے معمار گرد آلود سڑک پر رینٹ کار کے انتظار میں کھڑے ہوں؟

کیا معاشرہ اتنا بے حس ہو چکا ہے کہ اساتذۂ کے وقار کی بات کرنا مذاق بن چکا ہے؟

ہمارے معاشرے کا المیہ یہ نہیں کہ سرکاری افسر شاہی مراعات حاصل کرتی ہے، بلکہ المیہ یہ ہے کہ وہ انہیں صرف اپنا حق سمجھتی ہے۔

اور اساتذہ؟ وہ آج بھی اپنی عزت، اپنا وقار اور اپنی سچائی لے کر سڑک کنارے کھڑے ہیں، کہ کوئی تو ہو جو اسے بھی منزل تک پہنچائے عزت کے ساتھ، وقار کے ساتھ۔

انہی جیسے درجنوں سوالات دل و دماغ میں موجزن تھے، ایک رینٹ کار آکر رک گئی اور ایک نوجوان لڑکے نے گاڑی چلاس کی طرف دوڑا دی اور مجھے 9 بجے چلاس پہنچا دیا۔

اب آپ نے یہ سوال مجھ سے نہیں کرنا کہ کیا کالجز کے پاس اتنا بجٹ نہیں کہ وہ اپنے دور دراز سے آنے والے اساتذۂ کی سواری کا کوئی بندوبست کرے؟ پھر ایک اور پینڈورا بکس کھل جائے گا۔

بہرحال اساتذۂ کے حوالے سے کچھ تجاویز ذہن میں آرہی ہیں، شئیر کرنے میں کوئی حرج نہیں، مجھے بھی معلوم ہے کہ اعلی ترین گاڑیوں اور بے تحاشا مراعات استعمال کرنے والوں پر یہ باتیں اثر نہیں کرتی مگر قوم کو شعور دینے کے لیے کچھ تجاویز لکھنا عبث بھی نہیں۔ ملاحظہ کیجئے۔

1۔ اساتذہ کے لیے سفری سہولت:

دور دراز علاقوں میں تعینات اساتذہ کے لیے سرکاری ٹرانسپورٹ یا کم از کم ماہانہ سفری الاؤنس مختص کیا جائے تاکہ انہیں اپنی جیب سے کرایہ نہ دینا پڑے۔

2۔ تعلیمی مراعات کا ازسرِنو جائزہ:

جس طرح ججز، ڈاکٹرز اور اعلیٰ افسران کو سہولیات حاصل ہیں، اسی طرح تعلیمی شعبے کے لیے بھی مخصوص مراعاتی پیکج تشکیل دیا جائے۔

3۔ قدر و عزت کی مہم:

اسکولوں، کالجوں اور یونیورسٹیوں میں "عزتِ استاد" کے عنوان سے آگہی مہمات چلائی جائیں تاکہ نئی نسل اساتذہ کے حقیقی مقام سے واقف ہو۔

4۔ قانون سازی:

اساتذہ کے حقوق، ٹرانسفر پالیسی، رہائش، سفری سہولیات اور دیگر مسائل پر باقاعدہ قانون سازی ہوتاکہ ان کے مسائل وقتی ہمدردی سے نہیں، مستقل پالیسی سے حل ہوں۔

5۔ سوسائٹی میں توازن:

معاشرتی توازن کے لیے ضروری ہے کہ سرکاری افسران کے ساتھ ساتھ اساتذہ، نرسز اور دیگر بنیادی سروسز سے جڑے افراد کو بھی وہی وقار اور سہولتیں دی جائیں، جو کسی بھی ریاستی ستون کو حاصل ہوتی ہیں۔

یہ تحریر صرف ایک شخص کی صبح کی دلدوز کہانی نہیں، یہ ہر اُس استاد کا نوحہ ہے جو قوم بناتا ہے، مگر خود بے سہارا، بے وسیلہ اور بے عزت رہ جاتا ہے۔

کاش کبھی انصاف کی سواری اُس کے لیے بھی رُک جائے۔

Check Also

Mufti Muneeb Ur Rehman

By Abid Mehmood Azaam