Friday, 01 November 2024
  1.  Home
  2. Blog
  3. Abid Mir
  4. Maut Ki Himayat Mein

Maut Ki Himayat Mein

موت کی حمایت میں

حفیظ تبسم کا نام پہلی بار "ادراک" کے وسیلے ہی سنا تھا، جس میں معاون مدیر بھی ہیں، وہیں ان کا افسانہ بھی نظر سے گزرا۔ پھر ان کی نظموں کی ایک کتاب بھی سنی مگر دیکھنے کا اتفاق نہ ہوا۔

اب انہوں نے اپنا افسانوی مجموعہ بھجوایا، تب میں اسلام آباد تھا۔ واپسی پہ کچھ ضروری کام نمٹا کر پہلی کتاب یہی اٹھائی۔ میں عرض کر چکا ہوں کہ چار پانچ سو صفحات کا ناول بھی میں ایک ہی نشست میں پڑھ لیتا ہوں۔ شاعری کی کتاب بھی عموماً ایک نشست میں نمٹ جاتی ہے مگر افسانے میں رک رک کر پڑھتا ہوں۔ کوئی بہت ہی برے اور غیر دلچسپ افسانے ہی ایک نشست میں پڑھے جا سکتے ہیں۔ اچھا افسانہ تو روک لیتا ہے اور ہضم کرنے کو وقت مانگتا ہے۔

حفیظ تبسم کی کتاب میں کل بارہ افسانے ہیں۔ میں ایک وقت میں دو سے زیادہ نہیں پڑھ سکا۔ تقریباً ہر افسانہ روک لینے والی شدت کا حامل ہے۔ اس لیے رک رک کر، اس کے ساتھ چلنا پڑا۔ اکثر معاصرین کی طرح جنس حفیظ کا مرکزی موضوع ہے مگر اس کے تناظر اتنے مختلف ہیں کہ ہر افسانہ یکسر جدا ہے۔ ("بانسری کی موت" تو کیا ہی اچھا افسانہ ہے، دیر تک یاد رہنے والا)۔

سب سے اچھی بات یہ کہ زبان آسان اور رواں ہے۔ واقعہ سادہ اور واضح ہے۔ کسی قسم کا جعلی ابہام اور زبردستی کی پیچیدگی پیدا کرنے کی کوشش نہیں کی گئی۔ جو معاصر افسانے میں ناپید نہ سہی، کمیاب ضرور ہے۔ البتہ زبان کی چند ایک اغلاط دکھائی دیں مگر یہ اتنی کم ہیں کہ ان سے صرفِ نظر کیا جا سکتا ہے۔ (جیسے ایک فقرے میں صیغہ واحد اور جمع دونوں استعمال ہوتے ہیں: "آپ کا وہم ہے۔۔ اور پھر تمہاری حالت بھی اچھی نہیں۔ افسانہ: وہ کتا اچھا تھا، ص 82۔ "بس کریں جی، پھر تم سے ہوتا ہواتا تو کچھ ہے نہیں۔ " افسانہ: بابا کنل، ص 88۔ اسی طرح ایک جگہ "نظریں گڑونا" کچھ عجب لگا)۔

مجموعی طور پر اردو فکشن میں ناول کی اجارہ داری قائم کرتی فضا میں اور افسانے کے پسپا ہوتے ماحول میں ایسے تازہ افسانوی مجموعوں کی آمد واقعی میں تازہ ہوا کا جھونکا ہے۔ میں اپنے معاصر افسانہ نگار دوست کو اس پہ خوش آمدید کہتا ہوں، خوشی سے بغل گیر ہوتا ہوں۔

Check Also

Oriental College Mein Aik Aalim Aadmi

By Hafiz Safwan