Monday, 23 December 2024
  1.  Home
  2. Blog
  3. Abid Hashmi
  4. Corona Aur Ummul Masail Abadi Ka Afreet

Corona Aur Ummul Masail Abadi Ka Afreet

کورونا، اور اُم المسائل آبادی کا عفریت

ہر سال پاکستان سمیت دُنیا بھر میں اُم المسائل آبادی کا عالمی دِن منایا جاتا ہے۔ اگر بے روزگاری، سہولیات کا فقدان اور دیگر مسائل کو دیکھا جائے تو سب کی جڑ آبادی میں بے ہنگم اضافہ ہی ہے۔ آبادی کا عالمی دن صرف منانا ہی کافی نہیں، بلکہ اس دن کی اہمیت کو تسلیم کرتے ہوئے ہمیں معیار زندگی کو بلند رکھنے کی کوششوں کو از سرِ نو مہمیز کرنے کی ضرورت ہے۔ اس سال اس دن کی افادیت اور بھی زیادہ ہو چکی ہے، کیونکہ کورونا عالمی وباء نے بے روزگاری، معاشی حالات کو ابتر کرنے کے ساتھ ہی دُنیا کو کئی سال پیچھے دھکیل دیا ہے۔ 1950ء میں 2.5 ارب آبادی والی دُنیا صرف 6دہائیوں میں 7ارب سے آگے نکل چکی ہے۔ عالمی ادارے یو این پالولیشن فنڈ کے ماہرین کا کہنا ہے کہ دُنیا بھر کے بے شمار مسائل میں اضافہ بڑھتی ہوئی آبادی ہے۔ جن میں خوراک کی کمی، علاج، رہائش، تعلیم، بنیادی اشیاء ضروریات کی فراہمی شامل ہے۔

اِس وقت دُنیا کی آبادی پونے آٹھ ارب کے قریب ہے۔ یہ قانونِ قدرت ہے، ہر زندہ شے نمو پاتی ہے اور اپنے وجود کو برقرار رکھنے کیلئے بے چین ومضطرب رہتی ہے۔ اسی لئے لاکھوں سے کروڑوں اور کروڑوں سے اربو ں میں شمار ہونے والی آبادی کے مسائل بھی اسی رفتار سے بڑھتے ہیں۔

آبادی میں اضافہ کی شرح یہی رہی تو بائیسویں صدی میں دُنیا میں سانس لینے والے انسانوں کی تعداد ممکنہ طور پر گیارہ ارب سے تجاوز کر چکی ہوگی۔ اس وقت تازہ ترین اعدادشمار کے مطابق پاکستان آبادی کے لحاظ سے بالترتیب چین (ایک ارب 42کروڑ)، بھارت (ایک ارب37کروڑ)، امریکا (تقریباً33کروڑ)، انڈونیشیا(تقریباً27کروڑ) اور برازیل (21کروڑ) کے بعد20کروڑ افراد کے ساتھ دنیا میں چھٹے نمبر پرہے۔

اگر ہم فہرست بلحاظ آبادی، اور اس کا دُنیا میں تناسب دیکھیں تو یوں ہے؛چین 1,404,110,000، 18.4%، بھارت، 1,361,820,000، 17.8٪، ریاست ہائے متحدہ، 333,624,000، 4.37%، انڈونیشیا265,015,300، 3.47%، برازیل، 213,326,000، 2.79%، پاکستان، 206,957,000، 2.71%، بنگلہ دیش، 168,901,000، 2.21٪، فلپائن 109,657,000، 1.44%، مصر 101,111,600، 1.32%، ایران83,587,500، 1.9٪، سوڈان 42,551,670، 0.56، مراکش 35,421,600، 0.464، ملائیشیاء 33,283,000، 0436٪، اردون 10,713,600، 0.14٪، یہ جند ممالک ہیں، لیکن دُنیا بالخصوص پاکستان میں آبادی کا بے تحاشہ اضافہ ام المسائل بن رہا ہے۔

ہم وطن عزیز کی بات کریں تو، تو قیاس ہے کہ 2050ء تک پاکستان کی آبادی 35کروڑ سے تجاوز کرسکتی ہے اور اتنی بڑی آبادی کے لئے بنیادی سہولتوں، خاص طورپر صحت عامہ کی سہولیات اور اس تک رسائی مشکل ہی نہیں ناممکن نظر آتی ہے۔ پاکستان کی آبادی کا بڑا حصہ نوجوانوں پر مشتمل ہے، جو اب کورونا کے باعث اور آگے آبادی میں اضافہ سے بے روزگاری کی تشویشناک صورت حال بن سکتی ہے۔ آبادی کنٹرول کرنے میں مشکلات کا سامنا ہے اور آبادی دن بدن بڑھ رہی ہے۔

1951کی پہلی مردم شماری میں پاکستان کی آبادی 03کروڑ 37لاکھ 40ہزار تھی جب کہ 1998کی پانچویں مردم شماری کے مطابق بڑھتے ہوئے 13کروڑ 23لاکھ52ہزار ہو چکی تھی۔ اب 48 سال میں 292 فیصد اضافہ ہوا جب کہ نیشنل انسٹیٹیوٹ آف پالولیشن سٹڈی کے مطابق 1951سے 2016ء تک پاکستان کی کل آبادی میں 443فیصد اضافہ ہوا۔ جب کہ 2017کی رپورٹ کے مطابق وطن ِ عزیز کی آبادی کچھ یوں ہے 1998سے2017کے دوران سالانہ اوسطاً2.40فیصد اضافہ ہوا۔ جو کہ 1998سے 2017کے دوران 2.4فیصد کی سالانہ شرح نمو کے ساتھ 20کروڑ 77لاکھ 74ہزار ہوگئی۔ ملکی آبادی میں 1998کی نسبت 57فیصد اضافہ جبکہ 1981کی مردم شماری کے بعد ملکی آبادی میں 146.6فیصد اضافہ ریکارڈ ہوا۔

پاکستان کے گھرانوں کی مجموعی تعداد3کروڑ 22لاکھ5ہزار 111ہو چکی۔ آبادی کہ کے پی کے کی آبادی 3کروڑ 5لاکھ، 23ہزار 371جبکہ گھرانوں کی تعداد 38لاکھ 45ہزار 168ہے۔ فاٹا کی آبادی 50لاکھ1ہزار 676ہے جبکہ گھرانوں کی تعداد5لاکھ 58ہزار379ہے۔ پنجاب کی آبادی 11کروڑ 12ہزار 442افراد پر مشتمل ہے جبکہ گھرانوں کی تعداد 1کروڑ 71لاکھ 3ہزار 835ہے۔ سندھ کی آبادی 4کروڑ 78لاکھ 86ہزار51ہے اور گھرانوں کی تعداد 85لاکھ 85ہزار 610ہے اور بلوچستان کی آبادی 1کروڑ23لاکھ 44ہزار 408ہے جب کہ گھرانوں کی تعداد17لاکھ 75ہزار 937ہے۔ اور پھر اسلام آباد دارلحکومت کی آبادی 20لاکھ 6ہزار 572جبکہ گھرانوں کی تعداد 3لاکھ 36ہزار 182ہے۔ آزاد کشمیر کی آبادی 40لاکھ نفوس پر مشتمل ہے۔ شہری آبادی میں اضافہ کا رحجان 36-38فیصد ہے دیہی علاقوں میں سہولیات کے فقدان کے باعث لوگ مسلسل شہروں کا رخ کر رہے ہیں جن سے شہروں کی آبادی میں مزید اضافہ جب کہ سہولیات کا فقدان ہو تا جا رہا ہے۔

پاکستان کے شہروں میں گھروانوں کی تعداد1کروڑ 21لاکھ92ہزار314 جب کہ دیہی علاقوں میں گھرانوں کی تعداد2کروڑ12ہزار 797 ہے۔ دیہی علاقوں میں 2.23فیصد سالانہ کی اوسطاً شرح نموکو ظاہر کرتی ہے۔ جب کہ شہری علاقوں کی مجموعی آبادی 7کروڑ 55لاکھ 84ہزار 999ہے جو 2.70فیصد سالانہ کی شرح نمو کو ظاہر کرتی ہے۔ جس کی وجہ سے پاکستان میں آبادی میں سے 3کروڑ سے زائد پاکستانی غربت کی لکیر کے نیچے زندگی بسر کر نے کے علاوہ 06کروڑ سے زائد لوگ پینے کے صاف پانی سمیت تعلیم، صحت و دیگر بنیادی سہولیات ِ زیست سے محروم ہیں۔ آبادی میں ہونے والا یہ اضافہ مسائل کے حل میں ایک بڑی رکاوٹ ہے۔

ذرائع ابلاغ، میڈیکل سائنس میں ترقی اور تعلیم کی بدولت ترقی یافتہ ممالک میں آبادی میں اضافہ پر قابو پالیا گیا ہے۔ غریب ممالک آبادی پر کنٹرول آسان نہیں۔ جب کہ اقوام ِ متحدہ کے ماہرین کا کہنا ہے ترقی پذیز ممالک میں تعلیم اور طبی سہولیات میں سرمایہ ہی بہترین حل ثابت ہو سکتی ہے کیونکہ آبادی میں ہونے والا یہ اضافہ اگر کنٹرول نہ کیا گیا تو مستقبل میں حالات مزید سنگین ہو سکتے ہیں۔ آبادی مسلسل بڑھ رہی ہے، وسائل کم، مسائل گھمبیر ہو رہے ہیں، ہم وقت سے پہلے اقدامات کرنا ہوں گے۔ آج وطن عزیز میں اگر بے روزگاری، سہولیات کا فقدان، تعلیم، صحت کا یہ حال ہے تو دوگنی آبادی پر کیا گل کھلیں گے؟

Check Also

Quaid e Azam Ki Mehbooba

By Muhammad Yousaf