Frog Syndrome Societies Ko Jhinjhorne Wala Leader
فراگ سینڈرم سوسائٹیز کو جھنجھوڑنے والا لیڈر
فراگ سینڈرم انگریزی ادب کی ایک اصلاح ہے جو ایک مینڈک کی کہانی پر مبنی ہے (سائنسی تھیوریز کے مطابق مینڈک وہ جانور ہے جو ایک خاص حد تک خود کو موسم کے مطابق ڈھال لیتا ہے)۔ مینڈک کو ایک فرائی پین میں ڈال کر آگ پر رکھ دیا جاتا ہےاور ہلکی آنچ پر پانی کو گرم کرنا شروع کر دیا جاتا ہے جب پانی ہلکا ہلکا سا گرم ہوتا ہے تو مینڈک اچھل کر فرائی پین سے باہر نکلنے کے بجائے اپنی قدرتی صلاحیت کو استعمال کرتے ہوئے خود کو ماحول کے مطابق ڈھال لیتا ہے۔
پانی مزید گرم ہوتا جاتا ہے مینڈک قدرتی صلاحیتوں کو بروئے کار لاتے ہوئے مزید حالات کے مطابق ڈھالتا جاتا ہے پانی گرم ہوتا رہتا ہے مینڈک اچھل کر باہر نکلنے کے بجائے خود کو ماحول کے مطابق ایڈجسٹ کرتا رہتا ہے لیکن آخر کار پانی درجہ حرارت کی اس اسٹیج پر پہنچ جاتا ہے جہاں مینڈک کی قدرتی صلاحیت بھی جواب دے جاتی ہے لیکن اب وہ اچھل کر باہر بھی نہیں نکل سکتا کیونکہ اس نے تمام انرجی خود کو ماحول کے مطابق ایڈجسٹ کرنے پر لگا دی تھی اور پھر وہ مینڈک اسی فرائی پین میں فرائی ہو جاتا ہے۔
یہ اصلاح انسان اور معاشروں پر جذوی اور کلی طور پر مصادق آتی ہے وہ انسان اور معاشرے جو حالات کا مقابلہ کرنے کے بجائے خود کو حالات کے دھارے پر چھوڑ دیتے ہیں یایوں کہو کہ اپنی تمام تر صلاحیتیں حالات کا مقابلہ کرنے کے بجائے خود کو حالات کی حدت کے مطابق ایڈجسٹ کرنے پر صرف کر دیتے ہیں تو آخرکار مشکلات اس قدر بڑھ جاتی ہیں کہ چاہتے ہوئے بھی حالات کا مقابلہ نہیں کرپاتے۔
اگر ہم پاکستان کی تاریخ کا بغور مطالعہ کریں تو مشاہدہ میں یہ بات آتی ہے کہ پاکستانیوں لیڈروں اور عوام کا شمار فراگ سینڈرم مائینڈڈ سوسائیٹیز میں ہوتا ہے کسی نے حالات کا مقابلہ کرنے کا نہیں سوچا ہر لیڈر حالات کا مقابلہ کرنے کے بجائے فراگ سینڈرم تھیوری کے مطابق حالات کے مطابق ایڈجسٹ ہونے کو ترجیح دی چاہے افغان جنگ جیسی پرائی جنگ میں ٹانگ اڑانے سے انکار ہو یا ڈنگ ٹپاؤ پالیسیوں کے لیے غیر ضروری سودی قرضوں کا حصول ہو کسی نے بھی ان کے دور رس مضر اثرات کے بارے میں نہیں سوچا کہ ان کے غیر مدبرانہ فیصلوں کا قرض ہماری آنے والی نسلیں کیسے چکا پائیں گی۔
مسلسل پرائی جنگ لڑنے کی وجہ سے ملکی معیشت پر پڑنے والے مضر اثرات اور لیڈران کی ڈنگ ٹپاو پالیسوں کی وجہ ملکی حالات یہ تھے کہ ہم ملک کے سالانہ بجٹ کا چالیس فیصد کے لگ بھگ قرضوں اور ان پر لاگو سود کی آدائیگی کی مد میں چلا جاتا تھا باقی ساٹھ فیصد کے لگ بھگ ملک کو سنبھالنے کے لیے ناکافی ہے اس لیے مزید قرض لینا پڑتا تھا لیکن کوئی بھی سنجیدہ نہیں تھا کہ ہم کس طرف جا رہے ہیں نالیڈران اورنا ہی عوام۔
ایسے میں فراگ سینڈرم مائینڈڈ قوم کو جب عمران خان نیازی جیسے محب وطن لیڈر نے آکر جھنجھوڑا اور بتایا کہ ایک وقت میں پانی انتہائی گرم ہو جاتا ہے اور اس وقت سے پہلے چھلانگ لگانی ہے ورنہ فرائی ہو جاو گے مدبرانہ بصیرت سے عاری اور سستی روی کا شکار قوم کو چھلانگ لگاکر فرائی پین سے نکلنا بھی جوئے شیر لانا کے مترادف لگ رہا ہے اس لیے عوام اس کی آج کل دشمن بنی پھرتی ہے لیکن وہ لیڈر ہی کیا جو حالات کے بھنور سے کشتی نکال کر نا لے جائے۔
تاریخ گواہ ہے کہ لیڈر جتنے بڑے بھنور سے کشتی نکالنے میں کامیاب ہوا اتنا عظیم لیڈر قرار پایا۔