Nayi Technocrat Hukumat
نئی ٹیکنوکریٹ حکومت
اس وقت ملکی سیاست جو پہلے سے ہی غیر یقینی صورتحال سے دوچار ہے۔ سیاسی عدم استحکام کی وجہ سے معیشت بھی آخری سانسیں لے رہی ہے۔ البتہ وفاقی وزیر خزانہ اسحاق ڈار بچانے کی کوششوں میں ضرور مصروف ہے۔ دوسری جانب اب سابق وزیر اعظم عمران خان کی جانب سے یہ الزام عائد کیا جارہا ہے کہ ڈھائی سال کے لئے نئی ٹیکنوکریٹ حکومت سیٹ اپ تشکیل دیا جارہا ہے۔ وہ ایک بار پھر اسٹیبلشمنٹ کو تنقید کا نشانہ بناکر ذمہ دار قرار دے رہے ہیں۔
اس تمام تر صورتحال کے پیچھے کہانی کیا ہے۔ اس کو سمجھنے کی ضرورت ہے۔ اسٹیبلشمنٹ اس وقت اپنے کئے گئے اعلان پر عمل پیرا ہوکر مکمل طور پر غیر سیاسی ہے۔ نئی قیادت کے بعد بلکل اس کے آثار بھی نظر آرہے ہیں۔ ملک میں دہشتگردی نے ایک بار پھر سے سر اٹھالیا ہے۔ جس کو مدنظر رکھتے ہوئے نئی قیادت سخت آپریشن کا ارادہ رکھتی ہے۔ اس کی وجہ سے وہ سیاست میں مداخلت کے بجائے امن و امان کی بحالی چاہتے ہیں۔
موجودہ حکومت کے وزیراعظم شہباز شریف ہیں۔ اس حکومت میں موجود کچھ اتحادی یہ چاہتے ہیں کہ انتخابات2023 کے بجائے 2024 میں کروائے جائیں پی ڈی ایم کے سربراہ مولانا فضل الرحمان اپنے کئی پریس کانفرنس اور بیانات میں یہ کہہ چکے ہیں کہ حکومت کا دوران یہ ایک سال مزید بڑھایا جا سکتا ہے۔ انتخابات ایک سال کے لئے مزید کیسے ملتوی کئے جائے، اس کے لیے آئینی راستہ دیکھا جا رہا ہے کہ کس طرح آئینی راستہ اختیار کر کے حکومت کا دورانیہ بڑھایا جائے۔
اس پر حکومت کے جو قانونی ماہرین ہیں، وہ تمام تر صورتحال کا جائزہ بھی لے رہے ہیں کہ اگر اس طرح کی صورت حال ہوتی ہے تو حکومت کا دورانیہ مزید ایک سال تک بڑھا دیا جائے گا۔ یقینی طور پر سابق وزیراعظم چیئرمین پاکستان تحریک انصاف عمران خان اس فیصلے کو شدید تنقید کا نشانہ بنائیں گے نہ صرف حکومت کو بلکہ اسٹیبلشمنٹ اور عدالتوں کو بھی اپنے نشانے پر رکھیں گے۔
نئی قیادت پر براہ راست عمران خان نے کوئی سوال تو نہیں اٹھائے ہیں، البتہ سابق قیادت کو کئی بار وہ اپنی پریس کانفرنس میں تنقید کا نشانہ بنا چکے ہیں اور حکومت کے خاتمے کا ذمہ دار بھی اسے ہی قرار دیتے ہیں۔ لیکن حالیہ پریس کانفرنس میں جب سے پرویزالٰہی کی جانب سے دھمکی آمیز انٹرویو ایک نجی ادارے کو دیا گیا، اس کے بعد عمران خان نے اس کا نام لینا بھی چھوڑ دیا ہے۔
دوسری جانب حکومت کی یہ کوشش ضرور ہے کہ کسی طریقے سے جو مشکل فیصلے کیے گئے ہیں، اسی کو برقرار رکھتے ہوئے عوام کو ریلیف دے کر تین سے چار ماہ بعد یا پھر اکتوبر تک الیکشن میں جانا چاہیے۔ دوسری جانب پیپلز پارٹی جو کہ ہمیشہ سے یہی کہتی رہی ہے کہ ہم جہموریت بہترین انتقام ہے، وہ بضد ہے کہ آئینی طریقے سے اس حکومت کو اپنی مدت مکمل کر کے الیکشن میں چلے جانا چاہیے اور عوام کو یہ حق حاصل ہونا چاہیے۔
کہ وہ اب بذریعہ ووٹ اپنی منتخب کردہ پارٹی کو ایوان میں بھیجے اور اکثریت اگر ان کے پاس ہو تو وہ حکومت بنائے۔ عمران خان کے ٹیکنوکریٹ حکومت بنانے کے الزام کے جواب میں وزیرداخلہ اور مسلم لیگ کے سینئر رہنما رانا ثناءاللہ نے ایک نجی چینل کو حالیہ انٹرویوں دیتے ہوئے کہا کہ ہماری حکومت آئین و قانون سے ہٹ کر کوئی بھی اقدامات نہیں اٹھائی گی نئی ٹیکنوکریٹ حکومت قائم کرنے کی بات کرنا عمران خان کا محض ایک نیا شوشہ ہے۔