Friday, 27 December 2024
  1.  Home
  2. Blog
  3. Abaid Ullah Khamees
  4. Zindagi To Mere Andaze Se Kamtar Nikli

Zindagi To Mere Andaze Se Kamtar Nikli

زندگی تو میرے اندازے سے کم تر نکلی

ماجد علی جسے سب پیار سے ماجھا ماجھا کہتے تھے۔ ماجد گاؤں کا سلجھا اور بڑوں کی عزت کرنے والا نوجوان تھا۔ جس نے ایف اے تک تعلیم حاصل کر رکھی تھی۔ والد کی وفات کے بعد گھر کے اخراجات بہت بڑھ گئے تھے جو پورا کرنا اس کی بس کی بات نہی تھی۔ ماجھا کبھی اپنے شہر سے بھی باہر نہیں نکلا تھا، لیکن حالات نے پانسہ پلٹا اور اُسے ضعیف ماں اور بزرگ باپ کی قبر کو چھوڑ کر ہجرت کرنا پڑی۔

اس کے ذہن میں آیا کے وہ داتا کی نگری جائے گا جہاں نذر و نیاز کے چکر میں کھانے کے لیے اچھا لنگر اور رات بسر کرنے کے لیے دو گز جگہ با آسانی میسر ہو جائے گی۔ دن کے ٹائم وہ لاہور شہر میں کوئی باعزت روزگار ڈھونڈ کر اپنی گزر بسر کے ساتھ ساتھ اپنی بوڑھی والدہ کے لیے بھی کچھ کما لائے گا۔ اسی سوچ میں ڈوبا وہ بس میں بيٹھا اور شہر لاہور کے سپنے سجائے لاہور کی جانب روانہ ہو گیا۔ داتا کی نگری میں پہنچنے کے لیے وہ بہت بےتاب تھا۔

بالآخر چار ساڑھے چار گھنٹے بعد اس کی بے چینی کا خاتمہ ہوا جب بس کنڈیکٹر نے آواز لگائی کہ داتا صاحب والے گیٹ پر آ جائیں۔ کنڈیکٹر کی آواز سنتے ہی ماجھا جلدی سے اترا اور وہاں کھڑے لوگوں سے داتا دربار کا پوچھا جنہوں نے بتایا کہ یہ آزادی فلائی آوار ہے سیدھا جائے اور آگے دربار شریف آئے گا۔ بھوک، پیاس اور چار گھنٹے کے سفر سے چُور ماجھا روٹی کی تلاش میں پرجوش پیدل ہی دربار کی جانب بڑھنے لگا۔

کافی پیدل چلنے کے بعد وہ داتا صاحب دربار پہنچا۔ اندر گیا تو پتہ چلا کہ جوتا جمع کروانے کے بھی پیسے لگتے ہیں۔ بے چارہ ماجھا جو پہلے ہی بے روزگار تھا بہت پریشان ہوا، پریشانی کے عالم میں وہ وضو خانے کی طرف بڑھا۔ جوتا اتارا وضو کیا، پیچھے مڑا تو اس کے اوسان خطا ہو گئے کیونکہ دربار شریف پر بھی لوگ چوری سے باز نہ آئے۔ کسی ظالم نے دربار کے تقدس کا حیا بھی نہ کیا اور اس کا جوتا چوری کر کے لے گیا۔

شدید پریشانی کے عالم میں وہ دعا کر کے باہر آیا، بھوک سے اس کی جان جا رہی تھی لنگر کے چکر میں وہ گھنٹہ لمبی قطار میں کھڑا رہا، گھنٹہ بعد اس کے ہاتھ ایک چھوٹا سا شاپر چاول کا آیا جسے خوشی سے لے کر ننگے پاؤں لاہور کی سڑکوں پر پھرتا رہا۔ رات لاڑی اڈے گزاری، صبح سارا دن مارا مارا پھرتا رہا لیکن اتنے بڑے شہر میں ماجھا چھوٹی سی نوکری سے بھی محروم رہا۔ دل میں خود کو ملامت کرتے آخر ہار مان کر وہ ویسے ہی ننگے پاؤں واپس اپنے گھر لوٹ آیا۔

آج اس کی ساری امیدیں دم توڑ گئی تھی، اس کے سارے ارمانوں پر پانی پھر چکا تھا۔ پڑھا لکھا ماجھا تھکے ٹوٹے جسم کے ساتھ دیہاڑی کرنے کے لیے مجبور ہو چکا تھا جبکہ اس کے نام نہاد حکمران اپنی کرسی کی لڑائیوں میں مصروف تھے۔ اس کرسی کو بچانے کی خاطر آئے روز کبھی پٹرول، کبھی گیس تو کبھی بجلی کی قیمتوں میں بے تحاشہ اضافہ کر کے ماجھے جیسے نوجوانوں کو غربت کی کال کوٹھڑی میں دکھیل رہے تھے۔

اللہ ملک پاکستان پر اپنی رحمت نازل کریں اور ہمیں مقدس مقامات کی عزت و تکریم کرنے کی توفیق عطا فرمائے اور ہمارے نام نہاد عوامی نمائندوں کے دلوں میں عوام کا احساس پیدا فرمائے۔ (آمین)

اُصول بیچ کر مسند خریدنے والوں
نگاہِ اہلِ وفا میں بہت حقیر ہو تُم

وطن کا پاس تمہیں تھا نہ ہو سکے گا کبھی
کہ اپنےحرص کے بندے ہو بے ضمیر ہو تُم

دل تو بہت چاہتا ہے سچ بولوں

لیکن حوصلہ نہیں ہوتا۔

Check Also

Richard Grenell Aur Pakistan

By Muhammad Yousaf