Monday, 25 November 2024
  1.  Home
  2. Blog
  3. Abaid Ullah Khamees
  4. Tum Haso Ge Ke Ye Kamzor Si Awaz Hai Kya

Tum Haso Ge Ke Ye Kamzor Si Awaz Hai Kya

تم ہنسو گے کہ یہ کمزور سی آواز ہے کیا

ہمارے ملک میں اس وقت سب سے بڑا بحران گندم اور آٹے کی قلت کا ہے۔ غریب دو وقت کی روٹی کے لئے ترس رہا ہے۔ جب اس ملک کا نظام چلانے والے سیاستدان اور بیوروکریسی اپنے گرم بستروں میں ہوتے ہیں، تب اس ملک کے نوجوان، بوڑھے اور قابل احترام خواتین اپنے پیاروں کیلیے ہاتھوں میں پیسے لیے 10 کلو آٹے کے حصول کیلئے بند دکانوں اور آٹے کے ٹرکوں کے انتظار میں سخت سردی اور شدید دھند کے باوجود لائن لگا کر کھڑے ہوتے ہیں۔

ایک سرائیکی شاعر نے اس منظر کو اپنے الفاظ میں کچھ ایسے بیان کیا ہے۔

جیندے گھر وچ روٹی نہیں پکدی میکوں اوں انسان تے ترس آندے۔

(جس گھر میں روٹی نہیں پکتی مجھے اس انسان پر ترس آتا ہے)

ترس آندے ملک دی قسمت تے ول ایں بحران تے ترس آندے۔

(ترس آتا ہے ملک کی قسمت پر اور پھر اس بحران پر ترس آتا ہے)

جیکوں آٹا مضطر ملدا نہیں مزدور کسان تے ترس آندے۔

(جس کو آٹا نہیں ملتا منظر مجھے اس مزدور کسان پر ترس آتا ہے)

جیڑھا آٹے کیتے لائن لگے مجبور جوان تے ترس آندے۔

(جو آٹا لینے کیلیے لائن پر لگے ہیں مجھے اس مجبور جوان پر ترس آتا ہے)

اپنے ہی ملک میں اپنی محنت سے کمائے پیسوں سے انہیں آٹا لینے کے لیے شدید مسائل کا سامنا کرنا پڑتا ہے۔ یہ لوگ کس جرم کی سزا کاٹ رہے ہیں؟

زرعی ملک کے باسی ایک بوری وصول کرنے کے لیے اپنی جان قربان کر رہے ہیں۔ چاروں صوبوں میں مختلف مقامات پر بھگدڑ مچنے سے اب تک کئی لوگ جان کی بازی ہار چکے ہیں۔ سوشل میڈیا پر دل دہلا دینے والی ویوڈیوز موجود ہیں۔ لوگ خودکشیاں کرنے پر مجبور ہو چکے۔ لیکن تجربےکار اور ہمدرد وفاقی حکومت اپنے کیسز معاف کروانے میں مصروف ہیں۔ اسحٰق ڈار اپنے تمام اثاثے بحال کروا چکے لیکن سفید پوش روٹی کے لیے ترس رہے ہیں۔

اس وقت روٹی پچیس اور نان تیس روپے میں فروخت ہو رہا ہے۔ وفاقی وزیر طارق بشیر چیمہ کو کوئی بتائے کہ 2200 والی گندم کا آٹا 5000 روپے فروخت ہو رہا ہے۔ موصوف فرما رہے ہیں۔ ملک میں گندم کا کوئی بحران نہیں، کسی صوبائی حکومت نے وفاق سے گندم کا مطالبہ نہیں کیا۔ بیس کلو آٹے کا تھیلا تین ہزار میں فروخت ہو رہا ہے۔ ذخیرہ اندوز لاکھوں کی دیہاڑیاں لگا رہے ہیں جنہیں پکڑنے ابھی تک نہ کوئی فرض شناس افسر سامنے آیا نہ ہی اس ملک کے بےبس، مجبور باسیوں پر کسی درد دل رکھنے والے پارلمینٹرین کا ضمیر جاگا کیونکہ ہر کسی کو اپنے مفادات عزیز ہیں۔

کچھ ماہ قبل ایک تقریب میں وزیراعظم صاحب بڑا للکار کر جوش خطابت میں فرما رہے تھے کہ میں اپنے کپڑے بیچ کر آٹا سستا کروں گا، میں بحیثیت پاکستانی شہری ان سے گزارش کرتا ہوں کہ محترم وزیراعظم صاحب آپ اپنے کپڑے نہ بیچیں لیکن اس ملک کے غیور اور سفید پوشوں پر خدا کے لیے رحم کریں۔ پاکستانیوں کا خون اتنا سستا نہیں کے آٹے کی لائن میں وہ بہہ جائے۔ آٹے کا تھیلا تو مل جائے لیکن اس کے گھر آٹے کے ساتھ اس کی لاش جائے۔

بس عوام پر اتنی نوازش کر دیں جتنی سلمان شہباز، اسحاق ڈار و دیگر پر کی ہے جس طرح ایک مفرور کو تین سال بعد خصوصی طیارے میں لا کر وزارت سے نوازا جس طرح دیگر سیاستدانوں پر نوزاشات کی بارش ہوئی، محترم شہباز شریف صاحب جس طرح محنت کر کے آپ نے اپنا نام ای سی ایل سے پہلے ہفتے میں ہی میں نکالوا لیا تھا۔ بقول محسن داوڑ کہ آپ نے اپنے کیسز تو پہلے ہفتے میں ختم کر دیے، لیکن عرصہ دراز سے آپ کو منتخب کرنے والی بے چاری قوم آج روٹی کو ترس رہی ہے۔

سرکار کاروبار تو پہلے ہی تباہ ہو چکے۔ فیکٹریوں کو تالے پڑنے لگ پڑے ہیں۔ لاکھوں لوگ بیروزگار ہو چکے آپ کس انتظار میں ہیں آپ خواب غفلت سے کب بیدار ہوں گے؟ سیاست کے سبھی گرو ابھی خاموش تماشائی کا کردار ادا کرتے ہوئے اپنے ووٹرز اور سپورٹرز کو آٹے کے لیے لائینوں میں کھڑے دیکھ کر، لطف اندوز ہو رہے ہیں۔ فلحال سبھی کا ضمیر سو رہا ہے۔ پتہ نہیں یہ گندی سیاست کتنی جانیں اور لے گی پتہ نہیں کب خیال آئے گا صاحب اقتدار لوگوں کو اب لاشوں پر سیاست چمکانے سب آ جائیں گے لیکن وقت پر ریلیف نہیں دینا اس وقت وفاق بشمول چاروں صوبائی حکومتیں عوامی مسائل سے لاعلم ہیں۔

فلحال تو ہمارے سیاسی قائدین اپنی جوڑ توڑ میں مصروف ہیں۔ کسی کو حکومت بچانے کی پڑی ہے کسی کو گرانے کی اس وقت سب اپنے مفادات میں مصروف ہیں۔ عوامی مسائل میں کسی کی کوئی دلچسپی نہیں بڑے بڑے میڈیا ہاوسز جو اس عوام کے نام پر دن رات ٹاک شوز کرتے ہیں۔ وہاں پر بھی مکمل خاموشی ہے اس ملک کا اس ملک کے باسیوں کا اللہ وارث ہے۔ اللہ تعالیٰ پاکستان کا حامی و ناصر ہو۔

پاکستان زندہ باد۔

تم ہنسو گے کہ یہ کمزور سی آواز ہے کیا

جھنجھنایا ہوا، تھرّایا ہوا ساز ہے کیا

آہ! تم فطرتِ انسان کے ہم راز نہیں

میری آواز، یہ تنہا میری آواز نہیں۔

Check Also

Kitabon Ka Safar

By Farnood Alam