Friday, 27 December 2024
  1.  Home
  2. Blog
  3. Abaid Ullah Khamees
  4. Muqaddar Ko Badalne Ki Jasarat Kyun Nahi?

Muqaddar Ko Badalne Ki Jasarat Kyun Nahi?

مقدر کو بدلنے کی جسارت کیوں نہیں؟

پاکستان میں بڑھتی ہوئی مہنگائی اور پریشان کن مسائل دیکھ کر بچپن میں والد محترم کا سنایا ہوا ایک مشہور قصہ یاد آگیا۔ بزرگ جب ہمیں قصہ سنایا کرتے تھے تب ہمیں سمجھ نہیں آتی تھی۔ بہت ہی مشہور یہ داستان ہے جسے قارئین متعدد بار پڑھ اور سُن چُکے ہوں گے۔ قصہ کچھ یوں تھا۔ کہ ایک بادشاہ کے دور حکومت میں دو علاقوں کو ملانے کے لیے ایک پل تعمیر کیا گیا جس سے عوام کو بہت سہولت میسر ہوگئی۔ بادشاہ کا وزیر دربار میں حاضر ہوا اور عرض کی، بادشاہ سلامت اگر اجازت دیں تو پل پر ایک سکہ ٹیکس نافذ کر دیا جائے؟

بادشاہ سلامت نے کہا کہ نہیں اس پر رعایا احتجاج کرے گی۔ وزیر نے کہا آپ فکر نہ کریں میں سنبھال لوں گا۔ پل سے آمدورفت بڑھنا شروع ہوگئی تو وزیر دوبارہ بادشاہ سلامت کے دربار میں حاضر ہوا اور التجا کی کہ اجازت دی جائے کہ ٹیکس کو دو سکے کر دیا جائے۔ بادشاہ نے کہا کہ نہیں عوام احتجاج پر اتر آئے گی۔ وزیر نے کہا کہ کچھ نہیں ہوگا، لہٰذا ٹیکس ڈبل کر دیا گیا۔ عوام کی آمدورفت مزید بڑھنے لگی تو وزیر نے چار گنا ٹیکس کر دیا اور پل پر دربان مقرر کر دیئے۔ جس پر بادشاہ کو فکر لاحق ہوئی کہ اب تو عوام احتجاج پر نکلیں گے، مگر پھر بھی کچھ نہ ہوا۔

کچھ عرصہ گزرنے کے بعد وزیر دوبارہ بادشاہ سلامت کے دربار میں حاضر ہوا اور عرض کی کہ بادشاہ سلامت دن بدن ٹیکس میں اضافہ ہو رہا ہے لہٰذا آپ اجازت فرمائیں کہ پل پر گزرنے والے شخص سے ٹیکس وصول کرنے کے ساتھ ساتھ چار چار لتر بھی لگائیں۔ جس پر بادشاہ سلامت سخت غصے ہوا کہ عوام احتجاج پر نکل آئیں گے۔ جس پر وزیر نے کہا کہ آپ فکر نہ کریں، کچھ نہیں ہوگا۔

ابھی چند دن ہی گزرے تھے کہ عوام کا ایک بڑا جم غفیر احتجاج کرتا ہوا بادشاہ کے محل کے باہر آ پہنچا۔ بادشاہ نے فوری طور پر وزیر کو طلب کیا اور کہا کہ کہا تھا نہ کہ عوام احتجاج پر اتر آئیں گے۔ وزیر نے کہا کہ فکر نہ کریں آئیے عوام سے سنتے ہیں کہ انہیں کیا مسئلہ در پیش ہے۔ بادشاہ سلامت نے عوام سے احتجاج کی وجہ طلب کی تو انہوں نے کہا کہ بادشاہ سلامت آپ کا دربار سلامت رہے۔

عرض یہ ہے کہ پل پر دربان مقرر کر دیے گئے ہیں جو ہر آنے جانے والے کو ٹیکس لے کر لتر بھی مارتے ہیں جس کی وجہ سے ہمارا وقت ضائع ہوتا ہے۔ آپ سے گزارش ہے کہ دربانوں کی تعداد میں اضافہ کر دیا جائے تاکہ ہم جلد لتر کھا کر آگے بڑھ سکیں اور ہمارا وقت ضائع نہ ہو۔ جس پر بادشاہ سلامت نے دل میں سوچا کہ یہ باشعور عوام نہیں بلکہ سوئی ہوئی قوم ہے، جس نے کبھی نہیں جاگنا۔

یہ کہانی پہلے محض کہانی ہی لگتی تھی لیکن اب پاکستان کے موجودہ حالات دیکھ کر یقین ہوگیا کے وہ قوم ہم ہی ہیں۔ اور بادشاہ سلامت ہمارے حکمران ہیں۔ آٹا مہنگا ہوگیا تو لمبی لائینوں میں لگ جانا ہے آٹے کے تھیلے کے لیے آپس میں لڑ کر قیمتی جان دے دینی ہے لیکن بولنا نہیں اپنے حق کے لیے آواز نہیں اُٹھانی، پٹرولیم مصنوعات میں ناقابل برداشت اضافہ ہو جائے تو بھی لمبی لائینوں میں ذلیل ہو کر گالی گلوچ کر کے ٹینکی فُل کرو لینی ہے لیکن اپنے حق کے لیے آواز نہیں بلند کرنی۔

ڈنڈے کھا لینے ہیں مہنگائی سے تنگ آ کر بچے بیچنے کے لیے بازار میں آ جانا ہے، خودکشی کر لینی ہے لیکن بےحس ظالم حکمرانوں سے سوال نہیں کرنا انہیں ہمیشہ زندہ باد ہی کہنا ہے۔ ان کو زندہ باد رکھنے کے لیے اپنے بچے بھوکے رکھ لینے ہیں لیکن سوال نہیں کرنا۔ اپنے حق کے لیے نکلنا بغاوت نہیں ہوتا البتہ غلط کو غلط نہ کہنا سب دیکھ کر بھی خاموش رہنا منافقت ہے۔

خدارا ڈنڈے کھانے والی قوم نہ بنیں بلکہ ہمارا حق کھانے والوں سے سوال کرنے والے بنو۔

اے میرے دیس کے لوگو شکایت کیوں نہیں کرتے

تم اتنے ظلم سہہ کر بھی بغاوت کیوں نہیں کرتے

یہ جاگیروں کے مالک لُٹیرے کیوں چنے تم نے؟

تیرے اوپر تیرے جیسے حکومت کیوں نہیں کرتے؟

یہ بھوک، افلاس، تنگدستی تمہارا ہی مقدر کیوں؟

مقدر کو بدلنے کی تم جسارت کیوں نہیں؟

(نوٹ)

پنتیس 35 روپے اضافہ پر قوم کو مطمن دیکھ کر وفاقی حکومت کا پٹرولیم مصنوعات میں مزید بھاری اضافے کا امکان۔

پاکستان زندہ باد۔

Check Also

Muhib e Watan Bangali

By Syed Mehdi Bukhari