Media Blackout
میڈیا بلیک آوٹ
ایک شخص جو کہ پاکستان میں بہت زیادہ مقبول ہے۔ جس کا خطاب یوٹیوب پر ریلیز بعد میں ہوتا ہے اور لوگ اسے سننے کے لیے پہلے سے بےتاب ہوتے ہیں۔ وہ ایسا لیڈر ہے کہ جس کا خطاب اگر دن میں 10 بار بھی ہو تو لوگ سنیں گے لوگ اکتائیں گے نہیں لوگ جان نہیں چھڑائیں گے سنیں گے بھی اور آگے شیئر بھی کریں گے۔ یہ شخص کوئی عام شخص نہیں بلکہ اسلامی جمہوریہ پاکستان کا سابقہ وزیراعظم ہے۔ اس عظیم ملک کا سابقہ فاتحہ کپتان ہے جس کا شمار پلیٹ فارم پر ملک کی نمائندگی اور اس ملک کو عزت دلوائی جس کا صلہ اس عظیم شخص کی آواز کو بند کرکے میڈیا پر بلیک آؤٹ کرکے دیا جا رہا ہے۔
وہ شخص نہ تو جھکا نہ ڈرا بلکہ ہمیشہ کی طرح آج بھی پرعزم ہے جب سے یہ حکومت لائی گئی ہے تب سے ہی حکومت کی تمام امیدیں ایم ایف سے وابستہ تھی۔ بڑی تگ و دو اور سخت شرائط کے بعد آئی ایم ایف کے وفد نے عمران خان سمیت دیگر راہنماؤں سے ملاقات کی جنہیں میڈیا پر بھرپور کوریج ملی لیکن عمران خان صاحب کی جو تصویریں نشر کی گئی۔ جو ہمارے الیکٹرانک اور پرنٹ میڈیا نے چلائی اس میں وائس کیپٹن شاہ محمود قریشی اور آئی ایم ایف کے نمائندہ کی تصویر تو واضح آتی ہیں اور چیرمین تحریک انصاف کی تصویر کو مکمل بلر کر دیا گیا۔
تصویریں، ان کی ویڈیوز، ان کے پیغامات، آپ ان کے جلسے جلوس تو بیان کر سکتے ہیں اس کی ساری پارٹی کو آپ اٹھا کر جیلوں میں ڈال سکتے ہیں لوگوں کو پکڑ پکڑ کر پانچ ایک چھڑوا سکتے ہیں لیکن آپ اس کو کسی کے دل سے زبردستی نکال نہیں سکتے۔ زبردستی پارٹی چھڑوا لینا بہادری نہیں ہوتی اپنی انا کی خاطر یہ لوگ عمران خان کو کبھی ایک عدالت کبھی دوسری عدالت کبھی تیسری عدالت اور کبھی ایک شہر کبھی دوسرے شہر کبھی تیسرے شہر میں مقدمات کی بھیٹ چڑھا رہے ہیں۔
سارے سیاستدانوں سے زیادہ اس پر آپ لوگوں نے کیس کر دیے لیکن اس سب کے باوجود بلاشبہ کپتان پاکستان کی عوام میں پہلے سے زیادہ مقبول ہو چکا ہے۔ اس وقت تقریباََ 80 فیصد ووٹرز عمران خان کے ساتھ ڈٹ کے کھڑے ہیں۔ آپ دیکھیں گے جب الیکشن اناؤنس ہوں گے فلحال تو دور دور تک الیکشن ہونے کا کوئی سوال پیدا نہیں ہوتا کیوں کہ آپ کو پتہ ہے یہ بات آپ بھی جانتے ہیں ہینڈلرز بھی جانتے ہیں۔
سب جانتے ہیں کہ جب بھی پاکستان کے اندر الیکشن ہوں گے بے شک عمران خان کو یہ اریسٹ کر لیں دوبارہ سے چاہے اس کی پوری پارٹی کو بین لگا دے لیکن اس کی تصویر پر الیکشن لڑنے والا یعنی کہ وہ کوئی بھی کینڈیڈیٹ اپنے فلیکسز پر یا اپنے اشتہاروں پر صرف عمران خان کی تصویر لگا دے تو وہ بھی بھاری اکثریت سے جیت جائے گا۔ دیکھیں سیاسی اختلافات ہوتے ہیں سیاسی معاملات چلتے رہتے ہیں لیکن ہمیشہ بات ثبوت سے کرنی چاہیے۔
اس وقت ڈیڑھ سال سے اوپر ہوگیا ہے اپوزیشن جو تھی وہ حکومت میں آئی ہوئی ہے اور تقریباََ پی ڈی ایم کے اتحاد میں تمام جماعتیں شامل ہیں جو کہ اس وقت کسی نہ کسی شکل میں حکومت کر رہی ہیں چاہے وہ کسی کے پاس گورنری ہے کسی کے پاس وزیر ہے کوئی مشیر ہے حتیٰ کہ نئی جنم لینے والی پارٹی استحکام پاکستان پارٹی کے جو مرکزی ترجمان ہیں عون چوہدری وہ بھی مشیر ہیں وزیراعظم شہباز شریف کے اور ان کے علاوہ نعمان لنگڑیال یہ بھی مشیر ہیں تو اس کا مطلب یہ ہوا کہ تمام پارٹیاں اس وقت حکومت میں موجود ہیں۔
یہ سب مل کر بھی عمران خان کے اوپر کوئی کیس ثابت نہیں کر سکیں۔ 200 مقدمات تو کر دیے ہیں پر سب کے سب بغض جھوٹ اور ذاتی انا پر مشتمل ہیں۔ دو سو میں سے کوئی تین کیس ثابت کر دیں کہ فلاں فلاں جو مقدمہ ہے نہ وہ بالکل اتھنٹک ہے وہ کسی لحاظ سے کسی حساب سے سیاسی مقدمہ نہیں ہے بلکہ وہ آپ نے کرپشن کی تھی۔ یہ وہ آپ نے پاکستان کے عوام کا پیسہ چوری کیا ہے یا وہ آپ نے پاکستان کی معیشت کو نقصان پہنچایا تھا۔
میرے دیکھنے میں ابھی تک ایسا کوئی کیس نظر نہیں آیا۔ صرف اپنی سیاست چمکانے کے لیے اپنی انا کی تسکین کے لیے ان پر اتنے مقدمات بنا دیے ہیں جو کہ شاید پاکستان کی تاریخ میں پہلے کبھی نہیں بنے۔ دوسری طرف جب سے وہ وزارت عظمٰی کی کرسی سے اترے ہیں اس دن سے لے کر آج دن تک ہزاروں کارکنان سینکڑوں مرکزی رہنما جیل کی سلاخوں کے پیچھے گل سڑ رہے ہیں۔ پاکستان کی عوام اب شعور کی منازل طے کر چکی ہے۔ وہ یہ جانتی ہے کہ سب کیس سیاسی ہیں۔ کسی کیس میں دم خم نہیں۔
سانحہ 9 مئی کی آڑ میں آپ نے بہت سے نوجوان بچے اور بچیوں کو جیلوں میں ڈالا ہے۔ اس بات کا بھی پاکستانیوں میں شدید غم وغصہ پایا جاتا ہے۔ یہ جو لوگ فلحال خاموش ضرور ہیں لیکن وقت پر آپ کو جواب دیں گے۔ جب الیکشن اناؤنس کریں گے اور آپ کے خلاف فیصلہ آئے گا پھر آپ کو بھی حقیقت عیاں ہو جائے گی۔ کہ یہ جو کچھ آپ نے کیا ہے یہ غلط کیا تھا سچائی کو کبھی بھی چھپایا نہیں جا سکتا۔ اس وقت پاکستان میں آئین معطل ہو چکا ہے قانون نام کی کوئی چیز نہیں ہے۔
وطن عزیز پر حکومت کرنے والے اور پاکستان کو بچانے کا دعویٰ کرنے والوں نے اپنے، اہلخانہ، اپنے دوستوں اور عزیز و اقارب کے کیس معاف کروائے اپنے کیس معاف کروائے وہ جو عرصوں سے کیسز چل رہے تھے ان کو بند کروایا۔ لیکن آئین پر عملدرآمد ہونے دیتے۔ تو اس وقت پاکستان کے دو بڑے صوبوں پنجاب اور پختون خواہ کے اندر الیکشن ہو چکے ہوتے صورتحال بدل چکی ہوتی۔ پاکستان اس وقت بدترین معیشت کا شکار نہ ہوتا سیاسی اختلافات بھی کچھ حد تک سنبھل گئے ہوتے۔ لیکن آپ نے تو بلیک آوٹ کرکے سب حاصل کرنا تھا تو کر لو جی۔ سب کچھ کرنے کے باوجود بھی تو ڈٹ کے کھڑا ہے اور اس کے چاہنے والے بھی۔