Mamnua Funding Ka Drop Scene
ممنوعہ فنڈنگ کا ڈراپ سین
گزشتہ دنوں الیکشن کمیشن آف پاکستان کے تین رکنی بینچ نے وفاقی حکومت کے دباؤ پر پاکستان تحریک انصاف کے خلاف فارن فنڈنگ کا فیصلہ سنایا۔ جسے تحریک انصاف کی مخالفت کرنے والی درجن بھر سیاسی جماعتوں اور کچھ مخصوص میڈیا گروپس نے اپنے بیانیے کے طور پر خوب استعمال کیا۔ اس کیس پر تقریباََ 200 سماعتیں ہوئی۔ جس میں پاکستان تحریک انصاف پر کسی قسم کی فارن فنڈنگ ثابت نہ ہو سکی۔
یہاں فارن فنڈنگ اور ممنوعہ فنڈنگ کی مختصر وضاحت کرنا ضروری ہے۔ الیکشن کمیشن ایکٹ کے سیکشن 204 کے سب سیکشن 3 کے تحت کسی بھی سیاسی جماعت کو بالواسطہ یا بلاواسطہ حاصل ہونے والے فنڈز جو کسی غیر ملکی حکومت، ملٹی نیشنل یا پرائیویٹ کمپنی سے حاصل کیے گئے ہوں وہ ممنوعہ فنڈز کے زمرے میں آتے ہیں۔ قانون کے تحت صرف اندرون ملک یا بیرون ملک مقیم ایسے افراد سے ہی چندہ یا فنڈز لیے جا سکتے ہیں جو کہ پاکستانی شہریت کے حامل ہوں۔
جبکہ تحریک انصاف کو فنڈز دینے والوں میں زیادہ تر بیرون ممالک میں مقیم پاکستانی ہی ہیں جنہیں فارنرز کی لسٹ میں شامل کر کے ممنوعہ فنڈنگ کا کیس بنایا گیا۔ قانونی ماہرین کے مطابق ممنوعہ فنڈنگ پر پارٹی بین یا تحلیل نہیں ہو سکتی البتہ جو فنڈز ہوں گے وہ ضبط ہو جائیں گے۔ الیکشن کمشنر کی سربراہی میں جو متفقہ فیصلہ دیا گیا۔ اس میں ممنوعہ فنڈنگ کی کچھ دستاویزات کو بنیاد بنایا گیا جس کا چورن پی ڈی ایم والوں نے پریس کانفرنسوں میں خوب بیچا اور اسی فیصلے کو بنیاد بنا کر عمران خان کو تنقید کا نشانہ بنایا جا رہا ہے۔
پی ڈی ایم کے مرکزی رہنماؤں نے عمران خان کو نااہل کرنے کا مطالبہ کیا۔ اور سپریم کورٹ آف پاکستان کی جانب سے عمران خان کو صادق اور امین قرار دیئے جانے پر معزز ججز کو بھی سخت تنقید کا نشانہ بنایا۔ پی ڈی ایم والے الیکشن کمیشن کے جس فیصلے کو بیانیہ بنا رہے ہیں۔ اس میں کہا گیا ہے کہ تحریک انصاف کو ممنوعہ فنڈنگ ہوئی ہے۔ تحریک انصاف نے عارف نقوی (ابراج گروپ) اور دیگر فارن کمپنیوں سے فنڈنگ لی ہے اور اس کے علاوہ 34 غیر ملکیوں سے بھی پارٹی اخراجات کی مد میں فنڈز لیے۔
تین رُکنی بینچ نے اپنے فیصلے میں لکھا کہ تحریک پی ٹی آئی نے کچھ اکاؤنٹس الیکشن کمیشن سے چھپائے ہیں۔ جو پی ٹی آئی کے مرکزی رہنما چلا رہے تھے۔ چیف الیکشن کمشنر نے کہا کے عمران خان صاحب نے الیکشن کمیشن میں مس ڈیکلریشن فارم جمع کرایا۔ اسی بِنا پر الیکشن کمیشن نے تحریک انصاف کو شوکاز نوٹس بھی جاری کیا۔ فیصلہ میں بینچ نے کہا کہ بتایا جائے، کہ کیوں نہ ممنوعہ فنڈ کو ضبط کیا جائے؟
اس فیصلے کو تحریک انصاف نے چیلنج کرنے کا فیصلہ کیا۔ اور تحریک انصاف کے مرکزی رہنماؤں نے میڈیا سے گفتگو کرتے ہوئے کہا کہ الیکشن کمیشن ہمت کرے اور باقی سیاسی جماعتوں کے خلاف زیر سماعت فیصلہ بھی سنائے۔ فیصلہ میں جنہیں غیر ملکی قرار دیا گیا اُن میں سے متعدد اوورسیز پاکستانیوں کا سخت ردعمل سامنے آیا انہوں نے ویڈیو بیانات اور سوشل میڈیا پر الیکشن کمیشن کے الزامات کی نفی کی۔
فارن فنڈنگ لسٹ میں شامل کینیڈا میں مقیم مراد انصاری جو پاکستانی شہری اور پاکستان تحریک انصاف کے ڈونر ہیں۔ انہوں نے بھی اپنے ویڈیو بیان میں الیکشن کمیشن کے الزامات کو مسترد کیا۔ اس کے علاوہ بینش آفریدی نامی خاتون نے بھی اپنے ویڈیو بیان میں کہا کہ میں نے سوشل میڈیا پر فارن نیشنل ڈونرز کی لسٹ دیکھی جس میں میرا نام بھی شامل کیا گیا ہے، جس پر مجھے بڑی حیرت ہوئی میرے نام کے آگے لکھا ہوا ہے "ناٹ پاکستانی"۔
انہوں نے کہا کہ میں الیکشن کمیشن اور سارے پاکستانیوں کو بتا دینا چاہتی ہوں کہ میں الحمداللہ پاکستانی ہوں پاکستان میں پیدا ہوئی ہوں۔ انہوں نے بتایا وہ 1996 سے تحریک انصاف کی سپورٹر ہیں۔ زین کاٹن لیمٹڈ جسے فارن کمپنی میں شامل کیا گیا۔ زین کاٹن ملز فیصل آباد میں قائم ہے۔ میاں عاطف جاوید (زین کاٹن ملز) کے مالک نے میڈیا سے گفتگو کرتے ہوئے کہا وہ پیر محل سے تحریک انصاف کی جانب سے 2013 میں ٹکٹ ہولڈر تھے۔
انہوں نے کہا کے 1992 سے اُن کی کمپنی فیملی ممبرز کے نام پر رجسٹرڈ ہے جس میں کسی فارنر کا کوئی عمل دخل نہیں۔ انہوں نے 10 ہزار پارٹی فنڈ میں دیا تھا جسے فارن کمپنی میں ڈال دیا گیا۔ اسطرح کے بہت سے اوورسیز پاکستانی سامنے آئے جنہوں نے اس فیصلے کو غلط ثابت کر دیا۔ الیکشن کمیشن پورے پاکستان کا ادارہ ہے جو فرد واحد یا کسی ایک جماعت کی خواہشات کا عمل پیرا نہیں ہو سکتا۔ الیکشن کمیشن سمیت تمام آئینی اداروں کو غیر جانبدار ہو کر اپنی آئینی حدود میں رہتے ہوئے کام کرنا چاہیے۔