Hazrat Imam Hussain (2)
حضرت امام حسینؑ (2)
محرم کے (10) دسویں دن حسین بن علیؓ اور عمر سعد کے لشکر مد مقابل تھے۔ ابو مخنف کے مطابق امام حسینؑ کی فوج کی تعداد 32 گھڑ سوار اور 40 پیادہ تھے۔ اور امام محمد باقرؑ کے مطابق 45 پینتالیس گھڑ سوار اور ایک سو 100 پیادہ تھے۔ اُن کے سامنے عمر بن سعد کی فوج تھی جس میں 30000 کے قریب جوان تھے۔ جنگ شروع ہوئی اور حسینؑ اور اس کے ساتھی مارے گئے۔
حسینؑ کی شہادت کے بعد، عمر بن سعد کی فوج نے حسینؑ کی فوج کے 72 ارکان کے سروں کو نیزوں پر بلند کیا اور ان کے اجسام پر گھوڑے دوڑائے۔ یہ جنگ نواسہ رسول حضرت امام حسینؑ ابن علی رضی اللہ تعالی عنہ، ان کے حامیوں اور رشتہ داروں کے ایک چھوٹے سے گروہ، حسین ابن علیؓ کے ساتھ 72 ساتھی، کچھ غلام، 22 اہل بیت کے جوان اور خاندان نبوی ﷺ کی کچھ خواتین و بچے شامل تھے اور اموی ظالم حکمران یزید اول کی ایک بڑی فوج کے مابین ہوئی۔
جس کو حسینؑ نے تسلیم کرنے سے انکار کر دیا تھا۔ جس میں اموی خلیفہ یزید اول کی فوج نے پیغمبر اسلام محمد رسول اللہ ﷺ کے نواسے حسین ابن علی رضی اللہ تعالی عنہ اور ان کے رفقاء کو لڑائی میں شہید کیا۔ واقعہ کربلا لکھنا اور پڑھنا آسان ہے لیکن جو ظلم ہوا جو اہلیبیت نے جانوں کے نزرانے پیش کیے وہ ناقابل بیان ہے۔ کربلا کا سانحہ اسلامی تاریخ کا دردناک سانحہ تھا۔ عالم اسلام کی تاریخ کا سیاہ ترین دن تھا۔
اس بوڑھے آسمان نے اس سے زیادہ کٹھن کوئی گھڑی نہیں دیکھی، وہ مرحلہ جب اہلیبیت کے 72 افراد کو لہو آلود کیا گیا۔ اُن کے جِسمُوں پر برچھیاں برسائی گئیں انہیں شہید کیا گیا۔ وہ تڑپتے اجسام اللہ تعالیٰ کی جنتوں کے مہمان بن گئے۔ ظالموں نے اس ہستی کو بھی خون سے نہلا دیا جسے خاتم النبیین ﷺ نے اپنے کندھوں پر سوار کیا جس کے چہرے پر سرکار دو عالم ﷺ نے بوسے دیئے۔ اس مبارک جسم پر تیر برسائے جو اس دنیا کے اندر چلتا پھِرتا جنتی سردار تھا۔
جس کے لیے وما ینطق عنہ الھوی، ان ھو الا وحی یوحی۔ کی مقدس زبان سے فرمان جاری ہوا تھا کہ جس نے جنتی دیکھنا ہو وہ حسینؑ کو دیکھ لے۔ لشکر امام حسینؑ کا نام انشااللہ صفحہ ہستی پر قیامت کی دیواروں تک زندہ رہے گا۔ لیکن اہلیبیت کو تکلیف پہنچانے والے جو لوگ تھے وہ قیامت تک ذلیل و رسوا ہوتے رہیں گے۔ شيخ الإسلام ابن تيمية فرماتے ہیں۔ جس نے سیدنا حسینؓ کو شہید کیا یا ان کو شہید کرنے میں مدد کی یا اس پر راضی ہوا تو اس پر اللہ تعالیٰ، فرشتوں اور تمام لوگوں کی لعنت ہو، اللہ تعالیٰ اس کی فرضی اور نفلی عبادت قبول نہ کریں مجموع الفتاوى (487/4)۔
حسنین کریمینؑ سے محبت کرنے والے سدا آباد رہیں گے۔ اس سینے میں کبھی نفاق کا زنگ نہيں لگ سکتا، جس سینے میں آل رسول ﷺ کی محبت زندہ رہتی ہو۔ آل رسول ﷺ سے محبت کرنا ہمارے ایمان، ہمارے وجود اور ہماری زندگی کا حصہ ہے۔
میں سمجھتا ہوں کے سات ارب کی آبادی میں جتنے مسلمان ہیں۔ مسلمانوں کے 57 ستاون ممالک میں کوئی بھی غیور ایسا نہیں ہو سکتا۔ جو ہو تو مسلمان اور اہلیبیت سے محبت نہ کرتا ہو۔ ہمیں اس حوالے سے یہ ضابطہ طے کرنا ہو گا کہ ایمان کی سب سے اہم صفت یہ ہے کہ آل رسول ﷺ کے ساتھ محبت اور اُن کے ساتھ ہمدردی کا اظہار پیش کیا جائے۔
میری شہ رگ کا لہو، نذرِ شہیدانِ وفا
میرے جذبوں کی عقیدت کربلا والوں کے نام