طیب اردوان کی باتیں اور لاہور میں ہونے والی ھرزہ سرائی
کافی عرصہ بعد محترم وزیرِ اعظم جناب عمران خان صاحب کے منہ سے ایک سچی بات نکلی ہے کہ عالمِ اسلام کے جراتمند رہنما اور ترکی کے مردِ آہن طیب اردوان اگر پاکستان میں الیکشن میں حصّہ لیں تو وہ یہاں بھی سویپ کریں گے۔
زمانہ حال میں مسلم دنیا کے سب سے مقبول اور محبوب لیڈر طیب اردوان اپنے دوسرے گھر پاکستان آئے اور یہاں کے مکینوں کے سامنے اپنا دل کھول کر رکھ دیا، عالمِ اسلام کا درد رکھنے والے رہنما کے دل سے نکلی ہوئی آواز گونجی کہ "پاکستان کے ساتھ ہمارے تعلقات کی بنیاد صرف سیاسی، تجارتی یا معاشی نہیں، یہ رشتہ عشق اور محبت کا رشتہ ہے" تو تمام ممبرانِ پارلیمنٹ نے پہلی بار کسی تقریر کو پورے جوش و خروش سے داد دی۔
اہلِ پاکستان کے دل تو پہلے بھی طیب اردوان کی محبت سے سرشار ہیں مگر انھوں نے یہ کہہ کر کہ "کشمیر کے ساتھ جو آپکا تعلق ہے وہی ہمارا تعلق ہے" بائیس کروڑ پاکستانیوں کے دل مٹھی میں لے لیے۔ مہمان رہنما کو اس خطے کے مسلمانوں کا ترکوں کے ساتھ محبت، عقیدت اور یکجہتی کا مکمل ادراک تھا، اور اس نے اس کا کھل کر اظہار کیا، اُس نے علی برادران کا عثمانی خلافت کی بحالی کے لیے جدوجّہد کا اعتراف کیا اور یہ بھی کہا کہ ہم یہ کیسے بھول سکتے ہیں یہاں کی مسلمان خواتین نے ہمارے مشکل وقت میں اپنے زیورات تک اتار کر دے دیے تھے اور پھر یہ بھی کہا کہ ہم عظیم شاعر ڈاکٹر محمد اقبالؒ کی ترکوں کے کے لیے کہی گئی نظموں کو کیسے بھول سکتے ہیں۔
اس سلسلے میں انھوں نے اپنے خطاب میں طرابلس پر اٹلی اور دیگر یورپی فوجوں کے حملے میں شہید ہونے والے ترک بھائیوں کے ساتھ اظہارِ یکجہتی کے لیے بادشاہی مسجد لاہور میں منعقد ہونے والے عظیم الشّان جلسے میں علامّہ اقبالؒ کی اُس نظم کا ترکی میں ترجمہ سنا دیا جسے سنکر مسلمانوں کا جوش و جذبہ آسمان کو چھونے لگا تھا۔ قارئین کی دلچسپی کے لیے حکیم الامت حضرت علامّہ اقبالؒ کی اصل نظم شیئر کر رہا ہوں۔"نظم کا عنوان ہے "حضورِ رسالت مآبؐ میں " یہ شعر ایک تخیلاتی سفر کے بارے میں ہے جس میں اقبالؒ دربارِ رسالت میں پہنچتے ہیں اور آقائے دوجہاں ﷺ کو ایک تحفہ پیش کرتے ہیں۔
گراں جو مجھ پہ یہ ہنگامہء زمانہ ہُوا
جہاں سے باندھ کے رَختِ سفر روانہ ہُوا
فرشتے بزمِ رسالتؐ میں لے گئے مجھ کو
حضورِ آیہء رحمتؐ میں لے گئے مجھ کو
کہا حضوؐر نے، اے عندلیبِ باغِ حجاز
کلی کلی ہے تری گرمیِء نوا سے گُداز
ہمیشہ سرخوشِ جامِ وِلا ہے دل تیرا
فتادگی ہے تری غیرتِ سجودِ نیاز
اُڑا جو پستیِ دنیا سے تُو سُوئے گردُوں
سِکھائی تجھ کو ملائک نے رفعتِ پرواز
نکل کے باغِ جہاں سے برنگِ بُو آیا
ہمارے واسطے کیا تُحفہ لے کے تُو آیا؟
اب اقبال ؒ عرض کرتے ہیں :
حضورؐ! دہر میں آسُودگی نہیں مِلتی
تلاش جس کی ہے وہ زندگی نہیں مِلتی
ہزاروں لالہ و گُل ہیں ریاضِ ہستی میں
وفا کی جس میں ہو بُو، وہ کلی نہیں مِلتی
مگر میں نذر کو اک آبگینہ لایا ہوں
جو چیز اس میں ہے، جنّت میں بھی نہیں ملتی
جھلکتی ہے تری اُمّت کی آبرو اسمیں
طرابلس کے شہیدوں کا ہے لہُو اسمیں
ہمیشہ کیطرح ترکی کے حکمران اور خاتونِ اوّل دونوں ا کٹّھے پاکستان تشریف لائے، جناب طیب اردوان دنیا بھر کے مسلمانوں کا مقدمہ ایک نڈر اور بیباک لیڈر کیطرح لڑتے ہیں، دوسری طرف خاتونِ اوّل حجاب میں کبھی شرمندگی یا کمتری کے احساس میں مبتلا نہیں ہوئیں۔ نہ اردوان صاحب دنیا کے وڈیروں اور وقت کے فرعونوں سے کبھی خائف ہوئے ہیں اور نہ ہی کبھی ان کی رفیقہء حیات اسلامی اقدار پر عمل پیرا ہو کر اور اسلامی لباس پہن کر کسی احساسِ کمتری کا شکار ہوئی ہیں۔ جب تک ترکی کی زمامِ کار سیکولر اور دین بیزار حکمرانوں کے ہاتھ میں رہی، ترکی اقتصادی پسماندگی کا شکار اور یورپ کا مردِ بیمار رہا۔
اُسی ترکی کی باگ ڈور جب اللہ اور اللہ کے آخری نبی حضرت محمدﷺ سے رہنمائی حاصل کرنے والوں نے سنبھالی تو اسے چند سال میں ہی (امریکا اور بہت سے یورپی ممالک کی مخالفتوں اور سازشوں کے باوجود) ترقی اور خوشحالی کی بلندیوں تک پہنچا دیا اور اس سلسلے میں کئی یورپی ممالک کو پیچھے چھوڑ دیا۔ ہمارے اب تک کے تمام حکمران مغرب سے متاثر ہیں اور وہیں سے رہنمائی لیتے ہیں، انھی کے طے کردہ معیار ہمارے لیے حرفِ آخر ہیں۔ ہم ان کی تہذیب اور کلچر سے اسقدر مرعوب ہیں کہ ان کی زبان بولنے والوں اور انھی کا لباس پہننے والوں کو ہم برتر سمجھتے ہیں۔
ان کی تہذیب کی نقالی میں ہم نے اپنی اقدار تک قربان کر دی ہیں۔ ہمارے دیکھتے ہی دیکھتے مغربی کلچر کے پرچارک ہماری سرزمین پر آ کر حیاء کے قلعے پر حملہ آور ہوئے اور اسے تاراج کر کے رکھ دیا۔ ہماری آنکھوں کے سامنے حجاب تو کیا اُس تہذیب کے علمبرداروں نے ہماری بہنوں اور بیٹیوں کے سروں سے دوپٹہ تک کھینچ لیا ہے اور ہم اسی طرح خاموش رہے جسطرح بے غیرت لوگ چند ٹکوں کے لیے اپنی بیٹیاں زبردستی لے جانے والے وڈیروں اور چوہدریوں کے سامنے خاموش رہتے ہیں۔
اپنی بے حسی اور بے غیرتی چھپانے کے لیے ہم والدین کی حیثیت سے یہ جواز گھڑتے ہیں کہ "یہ نئے زمانے کا تقاضاہے"، یہ ماڈرن ازم ہے "نوجوان نئے زمانے کے مطابق زندگی گزارنا چاہتے ہیں"۔ ایسا ھرگزنہیں ہے، نہ یہ زمانے کا تقاضا ہے اور نہ یہ ماڈرن ازم ہے، یہ بدترین قسم کااحساسِ کمتری ہے۔ یہ مغربی تہذیب کی یلغار کے سامنے اعترافِ شکست ہے۔ ترکی کی خاتونِ اوّل اس یلغار کے سامنے کھڑی ہوگئی ہیں۔ انھوں نے شکست تسلیم کرنے اور اپنی دینی اقدار چھوڑنے اور اللہ کے احکامات سے روگردانی کرنے سے انکار کر دیا ہے تو کیا اس سے ان کا مقام اور مرتبہ کم ہوا ہے؟ ھرگز نہیں، ان کا مقام بلند ہوا ہے، وہ ترک خواتین کے لیے رول ماڈل بن گئی ہیں اور یورپی خواتین انھیں عزّت، احترام اور مرعوبیّت کی نظر سے دیکھتی ہیں۔
آج سے ایک صدی قبل یورپی تہذیب کے سونامی کی یلغار آج سے کہیں زیادہ تند و تیز تھی اُسوقت بھی الیٹ کلاس اُسمیں بہہ گئی تھی۔ عام لوگوں کا دین اور عقیدہ بھی اسمیں بہے جارہا تھا، کہ اقبالؒ کے پاور فل پیغام اور پرشکوہ آوازنے انھیں اس سیلاب میں بہہ جانے سے بچا لیا۔ اقبالؒ نے مسلمانوں کو متنبّہ کیا کہ اس تہذیب کی چکا چوند سے مر عوب ہونے کی ضرورت نہیں یہ نقلی زیورات والی چمک ہے۔
نظر کو خِیرہ کرتی ہے چمک تہذیبِ مغرب کی
یہ صنّاعی مگر جھُوٹے نگوں کی ریزہ کاری ہے
اقبال ؒنے اشرافیہ سے تعلق رکھنے والے مسلمانوں کو سمجھایا کہ تم نے مغرب کی خرافات اپنا لی ہیں مگر ان سے وہ چیز نہیں سیکھی جسمیں ان کی قوت اور ترقی کا راز ہے۔ طیب اردوان اور ان کی باوقار اہلیہ اقبالؒ کے پیغام کی مجسّم تصویر نظر آئے، اقبالؒ نے کیاکہا تھا، وہ بھی سن لیں!
قُوتّ ِ مغرب نہ از چنگ و رباب
نے زرقصِ دخترانِ بے حجاب
نے زسحرِ ساحرانِ لالہ روست
نے ز عریاں ساق و نے از قطعِ موست
قوتّ ِ افرنگ از علم و فن است
از ہمیں آتش چراغش روشن است
(مغرب کی قوتّ گانے بجانے میں یا بے حجاب لڑکیوں کے رقص و سرود میں نہیں، نہ ہی ان کی قوتّ جادو اثر حسیناؤں یا ان کی ننگی پنڈلیوں یا ان کے کٹے ہوئے بالوں سے ہے۔ یورَپ نے یہ قوتّ علم اور فن سے حاصل کی ہے اور اسی سے انھوں نے اپنی ترّقی کا چراغ روشن کیا ہے)
میں خود کبڈی کا شوقین ہوں اور اس کھیل کو میں نے سروس کے دوران بہت پروموٹ کیا ہے۔ فائنل میچ میں مشرف جنجوعہ اور علی وڑائچ کا کھیل بہت برا تھا انھیں ٹیم سے نکال دینا چاہیے۔ پاکستان اور بھارت کے درمیان کبڈّی کے فائنل مقابلے میں رننگ کمنٹری عموماً میزبان ملک کے کمنٹیٹر ہی کرتے ہیں، بھارت میں ہونے والے مقابلوں میں کمنٹیٹر ز بھارتی ایجنسیوں کے پڑھا ئے ہوئے سبق کے مطابق ہماری سرحد (یعنی وہ لکیر جو ہمارے شہداء نے اپنے خون سے کھینچی ہے) پر حملے کرنے سے باز نہیں آتے اور یہ تاثر دینے کی کوشش کرتے ہیں کہ مشرقی اور مغربی پنجاب کے درمیان یہ لکیر بلاوجہ کھینچ دی گئی ہے۔ اُس پر بھی احتجاج ہونا چاہیے، مگر جو کچھ لاہور میں ہوا وہ تو ناقابلِ یقین تھا۔ بھارتی کمنٹیٹر نے تمام سفارتی آداب اور اصولوں کو روندتے ہوئے یہ کہنا شروع کر دیا کہ کبڈّی دونوں طرف کے پنجابیوں کا محبوب کھیل ہے۔
مشرقی اور مغربی پنجاب کے درمیان جو سرحدیں ہیں وہ ختم ہونی چائیں اور وہ ٹوٹ جائیں گی۔ ایسی باتیں سنکر وہاں بیٹھے ہوئے سرکاری اہلکار منہ میں گھنگھنیاں ڈال کر کیوں بیٹھے رہے؟ انھوں نے اس بھارتی سے مائیک کیوں نہ چھین لیا؟ اس کا ویزا فوری طور پر کینسل کر کے اسے ڈی پورٹ کرنا چاہیے تھا۔ اور بھارت سے آئے ہوئے تما م حکّام کو واضح طور پر بتانا چاہیے تھا کہ وہ آیندہ اسطرح کی ھرزہ سرائی سے باز رہیں۔ اسطرح بدزبانی کرکے وہ ہمارے علیحدہ وجود کو چیلنج کرتے ہیں، اور وطنِ عزیز کے قیام کی نفی کرتے ہیں۔
افسوس ہے کہ وہاں کسی پاکستانی نے اس کا نوٹس نہ لیا۔ سیکیورٹی ادارے جو معمولی سی بات پر منتخب نمایندوں کو غدّاری کے سرٹیفیکیٹ دے دیتے ہیں کیوں خاموش رہے۔ اس کا نوٹس لیا جانا چاہیے اور وہاں موجود وزیروں اور تمام حکّام کے خلاف مجرمانہ غفلت پر کاروائی ہونی چاہیے۔ ہم سکھوں کی محبت میں کسی کو تقسیم کے نظرئیے یعنی اپنی بنیاد پر حملے کرنے کی اجازت نہیں دے سکتے۔