تقریر‘کشمیراورملک کی تقدیر
اقوامِ متحدہ کی جنرل اسمبلی میں وزیراعظم عمران خان صاحب نے اسلامو فوبیا اور کشمیر پر بہت اچھی تقریر کی، جس پر وہ مبارکباد کے مستحق ہیں۔ مگرتقریر کیا ہوتی ہے؟ باتیں۔ کیاباتوں سے معیشت ٹھیک ہو سکتی ہے؟ گفتار۔ کردار کا نعم البدل ہو سکتی ہے؟ ہرگز نہیں۔
پرائم منسٹر صاحب کی تقریر بہت اچھی تھی، مگر اس پر بھی رائے زنی کرتے ہو ئے کئی مداح توازن کی حدیں پارکرگئے۔ ایک وزیرصاحب نے اسے The greatest speeh of all times قرار دے دیا۔ میرے مخاطب پڑھے لکھے لوگ ہیں جو تنقید سن سکتے ہوں اور انتہائی مہذب اور شائستہ انداز میں جواب دینے کا سلیقہ بھی جانتے ہوں، ایسے جاہل جو اپنے لیڈروں کو پیغمبروں کی طرح خطاؤں سے پاک سمجھیں و ہ میرے مخاطب نہیں ہیں۔
باخبر لوگ جانتے ہیں کہ یواین جنرل اسمبلی میں بڑی بڑی معرکتہ لآراء تقاریر ہوتی رہی ہیں۔ کیوبا کے انقلابی لیڈر فیڈل کا سترو کے خطاب کے دوران ہال کھچا کھچ بھرا ہوا تھا۔ (ہمارے وزیرِاعظم کی تقریر کے دوران ہال کی صورتِ حا ل سب نے خود دیکھ لی۔ ایک سربراہِ مملکت بھی موجود نہ تھا) یاسرعرفات کی تقریر کے دوران درجنوں ممالک کے سربراہ موجود تھے اور ہا ل بار بار تالیوں سے گونجتا رہا۔ جب اُس نے کہا کہ میں شاخ زیتون لے کر آیا ہوں، اے دنیا کے فیصلہ سازومیرے ہاتھ سے امن کی یہ علامت گرنے نہ دینا، تو تالیوں کی آواز دنیا کے کونے کونے تک پہنچی۔ معمر قذافی کی معرکتہ لآراء تقریر بھی سب کو یاد ہے۔
وینز ویلا کے لیڈر شاویز کی تقریر لوگوں کو کیسے بھول سکتی ہے جس میں وہ امریکی صدر کو بار بار للکارتا رہا، چین کے لیڈرچواین لائی کی تقریر پوری دنیا کے راہنماؤں نے مکمل خاموشی کے ساتھ سنی تھی۔ پاکستان تو اپنے مسائل کی دلدل میں پھنسا ہواہے، ہماری قیادت(1978سے لے کر 2019 تک کے تمام حکمران) اپنے مسائل کے حل کے لیے یا کچھ ما لی مد د کے لیے امریکی صدر کی خوشنودی حاصل کرنے کی کوشش میں لگی رہتی ہے۔
آج بھی وہ یہی کر رہی ہے مگر دو مسلم ممالک کے دو قدآور لیڈر عالمی منظر نامے پر ایسے ابھر ے ہیں جنھوں نے عالمی سامراجی قوّتوں کو بڑی جرأت کے ساتھ للکارا ہے مگر اس سے پہلے انھوں نے اپنے ملکوں کو معاشی ترقی کے اوجِ کمال تک پہنچایا۔ آپ جان گئے ہوں گے ملائیشیا کے عظیم مدّبر ڈاکٹر مہاتیر محمد (جنھیں عمران خان صاحب اپنا استاد اور گائیڈمانتے ہیں ) کا تاریخ کا مطالعہ اور تجربہ بہت وسیع ہے وہ پچھلے کئی سالوں سے امریکا اور یورپ کی آنکھوں میں آنکھیں ڈال کر بات کرتے رہے، اوران کی ناانصافیوں کے نشاندہی کرتے رہے ہیں۔ اسلامو فوبیا کے بارے میں ڈاکٹر مہاتیر کے مدلّل اور تاریخی خطاب پوری دنیا میں سنے جا چکے ہیں اور وہ اس پر دنیائے اسلام سے کئی بار خراجِ تحسین وصول کرچکے ہیں۔
ترکی کے کرشماتی لیڈر رجب طیّب اردوان نے عوام کو معاشی خوشحالی سے سرشارکیا، ترکی کو معاشی ترقی کی بلندیوں تک پہنچایا، منتخب قیا دت کی بالادستی قائم کی، فوج کو آئینی حدود تک محدود کیا اورپھر وہ پورے عالمِ اسلام کی آواز بن گئے۔
طیّب اردوان کی جنرل اسمبلی میں کی جانے والی حالیہ تقریر ہی دیکھ لیں، انھوں نے دنیائے اسلام کے ہر مسئلے کا ذکر کیا۔ ہمارے لیڈر امریکا کی ناراضگی کے خو ف سے اسرائیل کے مظالم کا ذکر کرتے ہوئے گھبراتے ہیں، طیب اردوان نے پور ی جرأت سے نقشوں کی مد د سے دنیا کو بتایا کہ امریکا اور یورپ کا یہ ناجائز بچہ 1948میں صرف ایک dot (نقطہ ) تھا، اب فلسطین ایک نقطہ بن چکا ہے۔
انھوں نے کشمیر کے مظلوم مسلمانوں کا کھل کر ذکر کیا، ہندوستان کے اندر مسلمانوں کے ساتھ ہونے والے مظالم کو اجاگر کیا، روہنگیا اور شام کے مظلوم مہاجرین کا دکھ بیان کیا اور پھر انھوں نے اُن مظلوم اور بے گنا ہ نوجوانوں کا بھی ذکر کیا جو مصر کے فرعون سِسّی نے شہید کیے ہیں۔ اُس سے اگلے ہی روز ہمارے وزیرِ اعظم صاحب اُسی قاتل سِسّی سے ملے اسے پاکستان آنے کی دعوت دی اور فرمایا ہم آپکے تجربات سے فائدہ اٹھانا چاہتے ہیں۔ کون سے تجربات؟بے گناہ مسلمانوں کو قتل کرنے اور ان کے حقوق سلب کرنے کے تجربات؟
ڈاکٹر مہاتیر اور طیّب اردوان کی تقریروں کو عالمی لیڈر اس لیے سنجیدگی سے لیتے ہیں کہ وہ جوکچھ کہتے ہیں اُس پر عمل بھی کرتے ہیں، وہ دل کی بات زبان پر لاتے ہیں وہ محدود سیاسی مقاصد کے لیے یا کسی خاص طبقے کو خوش کرنے کے لیے بات نہیں کرتے۔ طیّب اردوان کی تقریر کو پوری دنیائے اسلام میں سراہا گیاہے مگر انھوں نے ترکی پہنچنے پر اپنا استقبال کروانے کی ضرورت محسوس نہیں کی۔
ڈاکٹر مہاتیر نے بھی اس طرح کی کوئی چھوٹی حرکت نہیں کی۔ دراصل Stature اور مقام کاموں اور عمل سے بنتا ہے، باتوں اور تقریروں سے نہیں، یہی وجہ ہے کہ پاکستانی لیڈر شپ اُن دونوں راہنماؤںکے مقابلے میں بَونی لگتی ہے۔
انگریزی زبان پرجس قدر عبور اور تاریخ کاجتنا عمیق مطالعہ ذوالفقار علی بھٹو کا تھا شائد ہی ساؤتھ ایشیاء کے کسی اور لیڈر کا ہو۔ کشمیر پر ان کی تقریریں حرفِ آخر کا درجہ رکھتی ہیں۔ مگر اتنی معرکتہ الآرا تقریروں سے کشمیر کی صورتِ حال میں کوئی تبدیلی نہ آئی۔
عمران خان صاحب کی تقریر بہت اچھی تھی، مگر کچھ منجھے ہوئے سفارتکاروں اور سابق سفیروں نے چند اہم اور حسّاس پہلوؤں کی نشاندہی کی ہے، جو محلِّ نظر ہے۔ ان کے بقول ایک طرف تو پرائم منسٹر صاحب نے مودی حکومت سے مطالبہ کیا ہے(اور بجاکیا ہے) کہ پچاّس دنوں سے مقبوضہ کشمیر میں لگایا گیا کرفیو اٹھا یا جائے، پھر ساتھ ہی انھوں نے یہ بھی فرمادیا کہ اگر کرفیو اٹھا یا گیا تو بہت خون خرابہ ہوگا۔ کیا وہ یہ کہہ کر مودی حکومت کو کرفیو جاری رکھنے کا جواز فراہم نہیں کررہے؟
میرے خیال میں وزیراعظم یقینا جواز فراہم کرنا نہیں چاہتے مگر انھیں فارن آفس کی ایڈوائس کے مطابق تقریر کرنا چائیے تھی۔ دوسرا بہت سے سفارتکاروں نے کہا ہے کہ عمران خان صاحب (دشمن کو ڈرانے کے لیے ہی سہی ) ایٹمی جنگ کا جس طرح ذکر کردیتے ہیں یہ بھی کسی ایٹمی ملک کے لیڈر کو زیب نہیں دیتا۔ اسے سفارتی حلقوں میں غیرذمے دارانہ بیان سمجھا جاتاہے، کبھی کسی ایٹمی ملک کا لیڈر اتنی آسانی سے یہ نہیں کہہ دیتا کہ ہم پر حملہ ہوا تو ہم ایٹم بم چلادیں گے۔
کئی سفارتکاروں کے بقول اس طرح کی باتیں کر کے we are inviting trouble۔ اس طرح کے غیر ذمے دارانہ بیانات سے ہمارے اور ہماری ایٹمی صلاحیت کے بدخواہ اور دشمن ہمارے خلاف Sanctions لگواسکتے ہیں یا ہمارے ایٹمی ہتھیاروں پر نا قابلِ قبول قسم کی پابندیاں لگواسکتے ہیں۔
ان ساری کوتاہیوں کے باوجود تقریر اچھی تھی۔ مگرتلخ حقیقت یہ ہے کہ صرف باتوں سے کوئی ہدف حاصل نہیں کیا جا سکتا، تقریر کے بعد بھی کشمیر کی صورتِ حا ل اور کشمیر مسلمانوں کی زبوں حالی جوں کی توں ہے اور پھر کوئی بھی تقریر ہماری معاشی بربادی کا مداوا تو نہیں کرسکتی۔ تقریر کا اثر تو چند دن رہتا ہے آپ دیکھ لیں تقریر کا اثر زائل ہو چکا، میڈیا کی توجہ اب 27اکتوبر کے احتجاج کی طرف چلی گئی ہے، ہمارے وزیراعظم صاحب نے صرف تقریر کرکے اپنا استقبال کراناضروری سمجھا اور وہ بھی فاتحِ کشمیر کی حیثیّت سے جب کہ قوم کی تقدیر کی تصویر یہ بتاتی ہے کہ معیشت لمحہ بہ لمحہ ڈوبتی جارہی ہے، کاروبار ٹھپ ہیں۔ انڈسٹری بند ہے۔
ایک آٹو انڈسٹری رہ گئی تھی، انھوں نے بھی60% کا م بند کردیا ہے۔ ایک سال میں لاکھوں لوگ بے روزگار ہوگئے ہیں۔ صنعت و تجارت کے لیڈر سول حکام کے بجائے آرمی چیف سے ملاقاتیں کررہے ہیں۔ وزیراعظم زبانی کلامی ریاستِ مدینہ کا نام لیتے ہیں مگر کابینہ میں بہت بڑی اکثر یّت اُن افراد کی رکھی گئی ہے جو مغربی تہذیب کے دلدادہ ہیں۔
حکومت کی احمقانہ پالیسیوں کی وجہ سے پچھلے سالوں جتنا ٹیکس بھی اکھٹا نہیں ہوسکا۔ برآمدات بہت نیچے آگئی ہیں، نوجوانوں کو ہنر مند بنانے کا پروگرام بھی بند کردیا گیا ہے مہنگائی کا طوفان درمیانے طبقے کو بھی اپنی لپیٹ میں لے چکا ہے مڈل کلاس یوٹیلیٹی بِل دینے سے بھی عاری ہو چکی ہے۔ ایسے لگتاہے ملک پر آسیب کا سایہ ہے اور ہرچیز برباد ہو رہی ہے۔ گورننس کا معیار انتہائی پست ہے، سامنے ٹی وی چینل پر وزیراعظم صاحب کاایک جذباتی سپورٹر (اینکر)کہہ رہا ہے کہ پنجاب میں جہاں رشوت کا ریٹ ایک لاکھ ہوتا تھا اب پچاس لاکھ ہوگیا ہے، اعلیٰ حکام کا آپس میں کوئی ربط نہیں، ایک Chaos اور کنفیوژن ہے۔
پولیس اور انتظامیہ میں بدترین قسم کی مداخلت ہو رہی ہے۔ پنجاب میں اینٹی کرپشن محکمے کا سربراہ ایک دیانتدار پولیس افسر( اعجاز شاہ)تھا مگر اسے دومہینے بھی برداشت نہ کیا گیا اور اسے ہٹا کر من پسند شخص کو اینٹی کرپشن کا سربراہ لگادیاگیاہے، میرٹ اور انصاف کے نعرے لگانے والے وزیراعظم نے امریکا میں اچھی تقریر ختم کرتے ہی پہلا کام یہ کیا کہ ایک غلط اور غیر قانونی کام نہ کرنے اور حکومت کا غیرقانونی حکم نہ ماننے پر انتہائی دیانتدار اور باضمیر افسروں ڈی جی ایف آئی اے بشیر میمن اور ڈائریکٹر ایف آئی اے افضل بٹ کو ہٹانے کا حکم دیا۔ ایماندار اور باضمیر سول سرونٹس بددل چکے ہیں، وہ اِس دور میں اپنے آپ کو غیر محفوظ سمجھنے لگے ہیں۔
عوام اپنے مسائل کا ذکر کریں تو کہاجاتا ہے دیکھو تقریر کتنی اچھی تھی۔ وزیرِاعظم کا خطبہ کتنا زبردست تھا۔ وزراء کہتے ہیں خان صاحب کی نیت بہت اچھی ہے۔ ارے بھائی نیت تو عمل سے ظاہر ہوتی ہے یا اعلیٰ سطح کی تعیناتیوں سے۔ کیا باتوں سے معیشت ٹھیک ہو سکتی ہے؟ کیا گفتار، کردار کا متبادل ہو سکتا ہے؟ کیا تقریر سے ملک کی تقدیر بدل سکتی ہے؟ ھرگز نہیں۔