نکل کر خانقاہوں سے ادا کر رسمِ شبّیری
(شہادتِ امام حسین ؓ)
معرکہء کربلا کا یہ وقت بہت سخت تھا۔ دشمن نے اپنی پوری قوتّ لگا دی۔ غضب یہ ہوا کہ میسرہ کے سپہ سالار حبیب ابن مظاہر بھی شہیدہو گئے: حبیب کے بعد حُر بن یزید کی باری تھی وہ جوش سے شعر پڑھتے ہوئے دشمنوں کی صفوں میں گھس گئے۔ چند لمحوں کی بات تھی، حُر زخموں سے چور ہوکر گرے اور جاں بحق تسلیم ہوگئے۔ اب ظہر کا وقت ختم ہو رہا تھا۔ امام عالی مقامؓ نے اپنے ساتھیوں کے ساتھ نماز پڑھی۔ نماز کے بعد دشمن کا دباؤ اور بھی زیادہ ہوگیا۔
اس موقعہ پر آپؓ کے میسرہ کے سپہ سالار زہیر بن القین نے میدان اپنے ہاتھ میں لے لیا اور یہ شعر پڑھتے ہوئے دشمن پر ٹوٹ پڑے "میں زہیر ہوں، ابن القین ہوں، اپنی تلوار کی نوک سے دشمنوں کو حسینؓ سے دور کر دوں گا" اورصفیں درہم برہم کر ڈالیں۔ پھر لوٹے اور سیّدنا حسینؓ کے شانے پر ہاتھ ما ر کر جوش سے یہ شعر پڑھے:
" خدا نے تجھے ہدایت دی، آج تو اپنے نا نا نبیﷺ سے ملا قات کرے گا، علی مرتضیٰ ؓسے بھی اور بہادر جوان جعفرؓ طیار سے اور شہیدِ زندہ اسد اللہ حمزہؓ سے بھی"۔
پھر دشمن کی طرف لوٹے اور قَتل کرتے رہے، یہاں تک کہ شہید ہو گئے۔ ان کے بعد دو جابری لڑکے سامنے آئے، دونوں بھائی تھے۔ زار و قطار رو رہے تھے۔ حضرت ؓنے انھیں دیکھا تو فرمانے لگے: اے میرے بھائی کے فرزند و! کیوں روتے ہو، ابھی چند لمحے بعد تمہاری آنکھیں ٹھنڈی ہو جائیں گی۔ " انھوں نے ٹوٹی ہوئی آواز میں عرض کیا: "ہم اپنی جان پر نہیں روتے، ہم آپ پر روتے ہیں، دشمن نے آپ کو گھیر لیا ہے اور ہم آپ کے کچھ بھی کام نہیں آ سکتے۔ " پھر دونوں نے بڑی ہی شجاعت سے لڑنا شروع کیا۔ بار بار چلاتے تھے: السلام علیک یا ابن رسول اللہ!"
ان کے بعد حنظلہ بن اسعد امامؓ عالی مقام کے سامنے آکر کھڑے ہوئے اور بآ وازِ بلند مخاطب ہوئے: " اے قوم! میں ڈرتا ہوں عاد و ثمود کی طرح تمہیں روزِ بد نہ دیکھنا پڑے۔ میں ڈرتا ہوں تم برباد نہ ہو جاؤ۔ اے قوم! حسینؓ کو قتل نہ کرو۔ ایسا نہ ہو خدا تم پر عذاب نازل کر دے۔ " بلآخر یہ بھی شہید ہو گئے۔
غرضیکہ یکے بعد دیگرے تمام اصحاب شہید ہو گئے۔ اب بنی ہاشم اور خاندانِ نبوتّ کی باری تھی۔ سب سے پہلے آپ کے صاحبزادے علی اکبر ؓ میدان میں آئے اور یہ شعر پڑھتے ہوئے دشمن پر حملہ کیا۔
انا علی بن حسین بن علی نحن و رب البیت اولیٰ بالنبی
میں علی بن حسین بن علی علیہ السلام ہوں۔ قسم رب کعبہ کی ہم نبی ﷺ کے قرب کے زیادہ حق دار ہیں
بڑی شجاعت سے لڑے، آخر مرہ بن منقذ کی تلوار سے شہید ہوگئے۔ ایک راوی کہتا ہے میں نے دیکھا کہ خیمہ سے ایک عور ت تیزی سے ایسے نکلی۔ جیسے اُٹھتا ہوا سورج! وہ چلارہی تھی آہ! بھائی! آہ بھتیجے! میں نے پوچھا :یہ کون ہے؟ لوگوں نے کہا " زینبؓ بنت فاطمہؓ بنت رسول اللہ ﷺ!" لیکن سیّد نا حسینؓ نے ان کا ہاتھ پکڑلیا اورخیمے میں پہنچا آئے۔ پھر علی اکبرؓ کی نعش اٹھائی اورخیمے کے سامنے لا کر رکھ دی۔
اس کے بعد حضرت حسینؓ کی عظیم بہن زینب ؓ بنت علیؓ کے دونوں بیٹے عون اور محمد شہید ہو گئے۔ اورپھر اہل بیت اور بنی ہاشم کے دوسرے جاں فروش شہید ہوتے رہے، یہاں تک کہ میدان میں ایک جوانِ رعنا نمودار ہوا، وہ کرتہ پہنے، تہ بندباندھے، پاؤں میں نعل پہنے تھا، بائیں نعل کی ڈوری ٹوٹی ہوئی تھی۔ وہ اس قدر حسین تھاکہ چاند کا ٹکڑا معلوم ہوتا تھا۔ شیر کی طرح بپھرتا ہوا آیا اور دشمن پر ٹوٹ پڑا۔ عمر و بن سعد نے اس کے سر پر تلوار ماری نوجوان چلایا :"ہائے چچا" اور زمین پر گر پڑا۔ آواز سنتے ہی سیّدنا حسینؓ غضب ناک شیر کی طرح قاتل پر لپکے، بے پناہ تلوار کا وار کیا، ہاتھ کہنی سے کٹ کر اڑ چکا تھا۔ زخم کھا کر قاتل نے پکارنا شروع کیا۔ فوج اسے بچانے کے لیے ٹوٹ پڑی، مگر گبھراہٹ میں بچانے کے بجائے اُسے روند ڈالا۔
راوی کہتا ہے "جب غبار چھٹ گیا، تو کیا دیکھتا ہوں کہ سیّد نا حسین ؓ لڑکے کے سرہانے کھڑے ہیں، وہ ایڑیاں رگڑ رہا ہے اور آپ فرماتے ہیں : "ان کے لیے ہلاکت جنھوں نے تجھے قتل کیا ہے۔ قیامت کے دن تیرے نانا کو یہ کیا جواب دیں گے؟ افسوس! تیرے چچا کے دشمن بہت ہو گئے اور دوست باقی نہ رہے۔ " پھر لاش اپنی گود میں اٹھا لی۔ لڑکے کا سینہ آپ کے سینہ سے ملا ہوا تھا اور پاؤں زمین پر رگڑتے جاتے تھے۔ اس حال سے آپ اسے لائے اور علی اکبرؓکی لاش کے پہلو میں لٹا دیا۔ راوی کہتاہے : "میں نے لوگوں سے پوچھا یہ کون ہے؟" لوگوں نے بتایا قا سم بن حسنؓ بن علی بن ابی طالب"۔
اب امام عالی مقامؓ پر ہر طرف سے نرغہ شروع ہوا، آپؓ نے بھی تلوارچلانا شروع کی پیدل فوج پر ٹوٹ پڑے اور تن تنہا اس کے قد م اکھا ڑ دیے، عبداللہ بن عمار جو خود اس جنگ میں شریک تھا۔ روایت کرتا ہے کہ میں نے نیزے سے حضرت حسین ؓ پر حملہ کیا اور ان کے بالکل قریب پہنچ گیا۔
اگر میں چاہتا تو قتل کر سکتا تھا، مگر اس خیال سے ہٹ گیا کہ یہ گناہ اپنے سرکیوں لوں؟ میں نے دیکھا دائیں بائیں ہر طرف سے ان پر حملے ہو رہے تھے، واللہ! میں نے کبھی کسی شکستہ د ل کو جس کے گھر کا گھر خود اُس کی آنکھوں کے سامنے قتل ہو گیا ہو، ایسا شجاع، ثابت قدم اور جری نہیں دیکھا۔ حالت یہ تھی کہ دائیں بائیں سے دشمن اس طرح بھاگ رہے تھے، جس طرح شیر کو دیکھ کر بکریاں بھاگتی ہیں، دیرتک یہی حالت رہی۔ اسی اثناء میں آپؓ کی بہن زینب بنت فاطمہؓ خیمہ سے باہر نکلیں۔ وہ چلّا رہی تھیں : "کاش! آسمان زمین پر ٹوٹ پڑے۔ " یہ وہ موقعہ تھا، جب کہ عمربن سعد سیّدنا حسین علیہ السلام کے بالکل قریب ہو گیا۔ سیّدہ زینبؓ نے پکار کر کہا : "اے عمر! کیا ابوعبداللہ تمہاری آنکھوں کے سامنے قتل ہو جائیں گے؟ "عمر نے منہ پھیر لیا، مگر اس کے رخسار اور داڑھی پر آنسؤوں کی لڑیاں بہنے لگیں۔
لڑائی کے دوران میں آپؓ کو بہت سخت پیاس لگی۔ آپؓ پانی پینے کے لیے فرات کی طرف چلے، مگر دشمن نے مزاحمت کی۔ اچانک ایک تیر آیا اور آپؓ کے حلق میں پیوست ہوگیا۔ آپؓ نے تیر کھینچ لیا۔ پھر آپؓ نے ہاتھ منہ کی طرف اٹھائے، تو دونوں چلو خون سے بھر گئے۔
آپ نے خون آسمان کی طرف اچھالا اور کہا۔ "الٰہی! دیکھ تیرے رسول ؐ کے نواسے سے کیا برتاؤ ہو رہا ہے؟" اب ہر طرف سے نرغہ ہوا۔ آپؓ نے پکار کر کہا : "کیوں میرے قتل پر ایک دوسرے کو اُبھارتے ہو؟ واللہ! میرے بعد کسی بندے کے قتل پر خدا اتنا نا خوش نہ ہوگا جتنا میرے قتل پر ناخوش ہو گا۔ " مگر اب وقت آچکا تھا۔ زرعہ بن شریک تمیمی نے آپؓ کے بائیں ہاتھ کو زخمی کر دیا پھر شانے پر تلوار ماری لوگ ہیبت سے پیچھے ہٹے مگر سنان بن انس نے بڑھکر نیزہ مارا اور آپؓ زمین پر گر پڑے اُس نے آواز دی سرکاٹ لو مگر کسی کو جرأت نہ ہوئی پھر وہی ملعون سنان بن انس آگے بڑھا اور اُس بدبخت نے نواسئہ رسول مقبولﷺ کا مقدسّ سرتن سے جدا کردیا۔
جعفر بن محمد بن علی سے مروی ہے کہ امامؓ عالی مقام کی شہادت کے بعد دیکھا گیا کہ آپ ؓ کے جسم پر نیزے کے 33 زخم اور تلوار کے34 گھاؤ تھے۔ اس جنگ میں امام حسینؓ کے 72 آدمی شہید ہوئے اور کوفی فوج کے 88 مقتول ہوئے۔
قرہ بن قیس (جو شاہدعینی ہے) روایت کرتا ہے کہ خاندانِ نبوت کی عورتوں نے جب سیّد نا حسین علیہ السّلام ان کے بیٹوں اور عزیزوں کی پامال لاشیں دیکھیں، تو ضبط نہ کر سکیں اور آہ و فریاد کی صدائیں بلند ہونے لگیں۔ میں گھوڑے لے کر ان کے قریب پہنچا۔ میں نے اتنی باوقار عورتیں کبھی نہیں دیکھی تھیں۔ میں نے دیکھا زینبؓ بنتِ فاطمہؓ، چادر اٹھا کر پکار رہی تھیں۔
یا "محمد ﷺ! آپ پر آسمان کے فرشتوں کا درودو سلا م!یہ دیکھ تیرا حسینؓ ریگستان میں پڑا ہے۔ خاک و خون میں آلودہ ہے، تمام جسم ٹکڑے ٹکڑے ہے۔ تیری بیٹیاں قیدی ہیں۔ تیری اولاد مقتول ہے۔ ہوا ان پر خاک ڈال رہی ہے"۔ راوی کہتاہے کہ حضر ت زینب بنتِ فاطمہؓ کے ان الفاظ نے سب کے دل چیر کر رکھ دیے اور وہاں دوست اور دشمن سب رونے لگے ایسے لگتا تھا زمین وآسمان بھی آہ وزاری کررہے ہیں۔
؎ غریب و سادہ ورنگیں ہے داستانِ حرم
نہایت اس کی حسینؓ ابتدا ہے اسمٰعیل
حضرت امام حسین ؓ نے اتنی بڑی قربانی کیوں دی؟ کیا انھوں نے اقتدار پر اپنے خاندان کے استحقاق کی بنا پر ایسا کیا؟ نہیں ایسا ہرگز نہیں، امام عا لی مقامؓ کسی عظیم مقصد کے لیے ہی اتنی عظیم قربانی دینے کے لیے اتنے پُر عزم ہو سکتے تھے اور وہ عظیم مقصد تھا۔ ریاست کے اسلامی طرزِ حکومت کا تحفظّ اور اسمیں بادشاہت کی ملاوٹ کی مزاحمت! اللہ کی حکمرانی کے بجائے بندے کی حکمرانی ماننے اور اللہ کی غلامی کے بجائے بندوں کی غلامی قبول کرنے سے انکار۔ اوردوسرا عظیم مقصد قیادت کا معیار طے کرنا تھا اور اسی معیار سے اسلام کے مستقبل کا فیصلہ ہونا تھا۔
خاندانِ نبوتّ نے اپنے خون سے یہ فیصلہ لکھ دیا کہ قیادت کے انتخاب کے وقت، پر کھنے والی چیز امیدوار کی دولت یا اثر و رسوخ نہیں، کردار ہے۔ جوشخص کردار کے مطلوبہ معیار پر پورا نہیں اُترتا وہ قیادت کا اہل نہیں ہے اور اس کی نفی اور مزاحمت کرناہی رسمِ شبّیریؓ ہے۔ ایک عظیم ترین مقصد کے ساتھ غیر متزلزل وابستگی کی آخری حد کو اقبال ؒ نے عشق کا نام دیا ہے۔ دینِ مصطفٰےﷺ کے تحفّظ کے لیے امامِ عالی مقامؓ نے اپنے خون سے اَیسا بابِ عشق تحریر کیا ہے جو ہمیشہ کے لیے اہلِ اسلام کی رہنمائی کرتا رہیگا۔
صدقِ خلیل ؐ بھی ہے عشق، صبرِ حسینؓ بھی ہے عشق
معرکۂ وجود میں بدرو حنین بھی ہے عشق
(ختم شد)