’’نظر بندی‘‘ کے دن گذارنے کا صیحح طریقہ
موضوعات کی بہتات ہے۔ چینی، آٹے کے بحران کی رپورٹ بھی ہر جگہ زیرِ بحث ہے، اسلام آباد کے باخبر حلقے کئی ماہ پہلے ہی اصل ذمہّ داروں کو پہچان گئے تھے، انھی کے کہنے پر انکوائری کمیٹی بنائی گئی جس نے واضح طور پر لکھ دیا ہے کہ وزیر اعظم کے دائیں بائیں بیٹھنے والے ہی اصل چور ہیں، اب عمران خان صاحب کیا کریں گے۔ اس کا جواب انھیں انتہائی قریب سے جاننے والے ان کے سگے چچا زاد بھائی اور بہنوئی نے کل رات ٹی وی پر دے دیا تھا کہ اگر خان صاحب کے پاؤں جلنے لگے تو وہ اپنے سب سے بڑے محسن کو بھی قربان کر دینگے۔
صرف اپوزیشن کا ہی نہیں، بہت سے ماہرینِ اقتصادیات کا یہ مطالبہ جائز ہے کہ عالمی مارکیٹ میں تیل کی غیر معمولی ارزانی کے باعث یہاں پٹرول کی قیمت ستر روپے فی لِٹر سے زیادہ نہیں ہونی چاہیے۔ وزیر اعظم اور اسد عمر عوام کو ان کے جائز حق سے کیوں محروم رکھ رہے ہیں؟ ٹی وی پر دکھایا گیا ہے وزیر اعظم صاحب ایک خاتون کو ریلیف پیکیج دے رہے ہیں ایسے کام کی ہرگز پبلسٹی نہیں ہونی چاہیے تھی، مستحقین کی مدد اللہ کی خوشنودی کے لیے کی جاتی ہے اور ایسا کر کے کم وسیلہ لوگوں پر کو ئی احسان نہیں کیا جاتا بلکہ یہ تو ان کا حق ہے جو انھیں ادا کیا جا تا ہے۔
سراج الحق صاحب کے سوا ہر سیاسی پارٹی کے لیڈر ماشاء اللہ ارب پتی ہیں، عوام کو معلوم ہونا چاہیے کہ انھوں نے اپنی جیب سے مستحقین کی مدد کے لیے کتنا حصّہ ڈالا ہے۔ تمام ممبران پارلیمنٹ، ملک کے اندر اور باہر موجود تمام سیاسی لیڈر اپنے نادار بھائیوں کی مدد کریں مگر پیکٹ پر نہ کوئی تحریر ہو اور نہ تصویر۔ میری تجویز ہے کہ میاں صاحبان اور ان کی فیملی لاہور کے ایک لاکھ مستحقین کے گھروں میں (چار ہزار روپے فی پیکٹ والے) راشن پیکٹ پہنچائیں۔ دوسرے لیڈران بھی اپنے اپنے شہروں میں یہ کار ِ خیر انجام دیں۔ کئی ٹی وی اینکرز بھی ماشاء اللہ کروڑ پتی ہیں، وہ بھی کسی قابلِ اعتبار تنظیم کے ذریعے اپنے نادار بھائیوں اور بہنوں کی ضرور مدد کریں۔
کوئٹہ میں ہمارے مسیحاؤں اور محافظوں کے ساتھ کیا جانے والا تشدّد انتہائی شرمناک اور قابلِ مذمت ہے۔ اُدھربھارتی حکومت کے ایک اہم ترین پالیسی سازاور بی جے پی کے سینئر راہنما سبرامنیم سوامی کے حالیہ انٹرویو نے مسلمانوں کے خلاف بھارتی حکام کے اصل عزائم بے نقاب کر دیے ہیں، اس نے ایک غیر ملکی خاتون کو انٹرویو دیتے ہوئے صاف صاف کہا ہے کہ ہم مسلمانوں کو برابر کے شہری نہیں مانتے، ہم انھیں ہندؤں کے برابر حقوق دینے کے لیے کسی صورت تیار نہیں ہیں۔ کیا ٓاج کے دور میں کوئی حکمران اپنے ملک کے بیس کروڑ عوام کے بارے میں ایسا کہہ سکتا ہے؟ بیان بڑا خوفناک ہے مگر دنیائے اسلام کے حکمرانوں کی بے حِسی اس سے بھی زیادہ تشویشناک اور درد ناک ہے۔
اب آتے ہیں اصل موضوع کی جانب کہ گھروں میں نظر بندی کے یہ دن کیسے گزارے جائیں، نظر بندی طویل ہو سکتی ہے اس کے لیے باقاعدہ پروگرام بنا لیں، زیادہ سے زیادہ کنّو، مالٹے اور سلاد کھائیں، ورزش کریں، گرم پانی اور گرین ٹی پئیں اور کتابیں پڑھیں۔ میں نے دو ڈھائی مہینوں کے لیے کچھ کتابوں کا انتخاب کر لیاہے۔ ان میں کچھ کتا بیں نئی اور کچھ پرانی ہیں، کچھ پہلی بار اور کچھ دوسری بار پڑھنے کے لیے چُنی گئی ہیں۔ اکثر اپنی لائیبریری سے نکالی گئیں اور کچھ آن لائن خریدی گئی ہیں۔
باشعور لوگوں کو سب سے زیادہ دلچسپی کائنات کی سب سے بڑی حقیقت جاننے میں ہونی چاہیے کہ انسان، سورج، چاند، ستارے اور دنیا کس نے تخلیق کی ہے اور تخلیق کا مقصد کیا ہے؟ انسان کا اپنے خالق کے ساتھ کیا تعلق ہے؟ خالق یہ سب کچھ تخلیق کر کے غیر فعال ہو چکا ہے یعنی وہ انسانی زندگی سے بے نیازہو گیا ہے یا اسے ہماری زندگیوں سے دلچسپی ہے؟ اگر ہے تو کس نو عیّت کی ہے؟ ان سوالوں کو جاننے یعنی اﷲ، قرآن اور اسلام سے متعلق مندرجہ ذیل کتابوں کا انتخاب کیا گیا۔
قرآن کی چار بنیادی اصطلاحیں، اس کے مصنّف مولانا ابو الاعلیٰ مودووی ہیں، یہ سو صفحوں کی چھوٹی سے کتاب ہے۔ جسمیں قرآن ِ کریم میں بار بار استعمال ہونے والی چار بنیادی اصطلاحوں اﷲ، ربّ، عبادت اور دین کے بارے میں انتہائی مدلّل اور دل پذیر انداز میں وضاحت کی گئی ہے۔
اس کے علاوہ علامہ محمد اسد (آسٹریا کے یہودی گھرانے میں پیدا ہونے والے نو مسلم جو بعد میں بہت بڑے اسکالر اور کئی کتابوں کے مصنف بنے اور سب سے پہلا پاکستانی پاسپورٹ بھی انھیں ہی ایشو کیا گیا) کی کتاب Islam at the Cross Roads ڈاکٹر حمید اللہ (عظیم مسلم اسکالرجو پیرس میں رہتے تھے اور جنہوں نے ساری زندگی اسلام کے لیے وقف کر دی تھی)کی Introduction to Islam، مولانا ابو الکلام آزاد(جنہوں نے قیام ِ پاکستان کی مخالفت کرنے کی سیاسی غلطی کی مگر ان کے علمی تبحر سے انکار نہیں کیا جا سکتا) کی "مقام ِ دعوت" پروفیسر احمد رفیق اختر کیThe Argument اورمولانا وحید الدّین خان کی "رازِ حیات" (جو آن لائن منگوائی گئی) مولانا وحید الدّین خان ہندوستان میں رہتے ہیں، اور جاوید غامدی صاحب کے اساتذہ اور Mentors میں سے ہیں۔ بھارتی حکمرانوں کی مسلم کُش پالیسی پر اُنکی خاموشی پر مجھے سخت اعتراض ہے مگر وہ ایک بڑے اسکالر ہیں۔
اسلام اور قرآن کو سمجھنے کے لیے صاحبِ قرآن کی زندگی کا مطالعہ بے حد ضروری ہے، اس سلسلے میں سیرتِ رسول اکرم ﷺ پر لکھی گئی دو غیر مسلم مصنفوں کی کتابیں چُنی گئیں جن میں A History of God کی مصنفہ Karen Armstrong کی کتاب Muhammad بھی شامل ہے۔ یہ دونوں کتابیں پڑھ لی گئی ہیں، اس کے علاوہ چند روز پہلے مولانا ابوالکلام کی کتاب سیر ت النبی ﷺ آن لائن منگوائی گئی ہے۔
اپنے اسٹڈی روم سے چند انگریزی کتب کا بھی انتخاب کیا گیا۔ جن میں جدید دنیا کی تاریخ کے بارے میں لکھی گئی The Silk Roads کے علاوہWhy Nations Fall۔ جواہر لال نہرو کی "خود نوشت" اور اہم ترین ممالک میں تیس سال تک پاکستان کے سفیر رہنے والے جناب جمشید مارکر کی Cover Point شامل ہیں۔
فکر ِ اقبال ؒ سے Inspire اور مستفیض ہونے کے بعد اقبالیات راقم کے پسندیدہ ترین موضوعات میں شامل ہے۔ اس سلسلے میں فارسی سے نا شناسی پر دکھ بھی ہوتا ہے اور کم مائیگی کا احساس بھی۔ لہذاء اقبال ؒ کی معرکۃ الآراء کتاب جاوید نامہ کا اردو ترجمے کے ساتھ مطالعہ شروع کر دیاہے۔ اس کے علاوہ کشمیر کے سب سے بزرگ، سب سے بہادر اور سب سے بلند کردار لیڈر سید علی گیلانی (جنھیں غیر جانبدارانہ تاریخ میں نیلسن منڈیلا سے بلند مقام کا حقدار قراردیا جائیگا) کی کتاب "اقبالؒ، روحِ دین کا شناسا" اور پروفیسر فتح محمد ملک کی "اقبال فراموشی"بھی زیرِ مطالعہ ہے۔ ادب و شعر کے خانے سے آغاناصر کی کتاب "ہم جیتے جی مصروف رہے" چنی گئی۔ جو فیضؔصاحب کی شاعری کے پسِ منظر کے بارے میں لکھی گئی ہے۔ آواز ِدوست جیسی کلاسک کتاب کے مصنف اور سابق بیوروکریٹ جناب مختار مسعود کی کتاب" حرف ِ شوق"بھی مطالعے کے لیے منتخب کر لی گئی ہیں۔
رات کو بستر پر لیٹ کر ٹی وی لگایا جاتا ہے مگر فوراً ہی بند کرنے کو جی چاہتا ہے۔ اس صورت میں مطالعے کے لیے کوئی ہلکی پھلکی تحریر والی کتاب ہونی چاہیے۔ لہذاء اس سلسلے میں بھی چند کتابیں منتخب کی گئی ہیں۔ ان میں ایک ہے خد و خال۔ اس میں نامور ادیبوں نے دوسرے نامور ادیبوں کے خاکے لکھے ہیں۔ دوسری کتاب افسانوں کا مجموعہ "دوام ِ زِندگی" ہے۔ اس میں ہماری معاشرتی زندگی کے احوال اور ہمارے آس پاس چلتے پھرتے کرداروں کی ایسے خوبصورت انداز میں تصویر کشی کی گئی ہے کہ قاری کا کتاب سے جدا ہونا مشکل ہو جاتا ہے۔ یہ منشورات
( رابطہ نمبر: 0300-6451765 ) نے چھاپی ہے جو بے حد مقبول ہوئی ہے۔ بریگیڈیئرصدیق سالک کی "سلیوٹ"بھی پڑھ لی ہے، کتابوں کے کچھ مندرجات قارئین کے ساتھ ضرور شئیر کرونگا۔ جناب اظہار الحق صاحب کی نئی کتاب مل چکی ہے۔ اس پر اگلے کالم میں بات ہوگی۔
کوشش کریں کہ رات کو دس بجے سو جایا کریں۔ صبح پانچ بجے اٹھیں، نماز کے بعد تیس سے چالیس منٹ تک واک کریں آجکل موسم بہت خوشگوار اور سیر کے لیے بڑا موزوں ہے۔ سیر کے بعد کچھ دیر کسی جید اسکالر کی تفسیر کے ساتھ قرآن کا مطالعہ کریں۔ ہر نماز کے بعد قادر ِ مطلق سے اس موذی وباء کے خاتمے کی دعا کریں۔ ہمیں چاہیے کہ ربّ ِ کائنات سے اپنے گناہوں اور غلطیوں کی معافی مانگیں اور اللہ سبحانہ ٰ تعالیٰ کا زیادہ سے زیادہ ذکر کریں۔ ہر روز ناشتے سے پہلے دس پندرہ منٹ ہلکی پھلکی ایکسر سائز ضرور کریں۔ اپنے بچوں یا Grand Children کے ساتھ ہلکی پھلکی گیمز کھیلیں، انھیں ethics سکھائیں اور ان کے دلوں میں اﷲ، رسول اللہﷺ اور رزقِ حلال کے لیے محبت پیدا کرنے کی کوشش کریں۔